حضرت عزیر علیہ السلام
قرآن مجید میں حضرت عزیر علیہ السلام کا نام مبارک ایک آیا، جس کی تفصیل درج ذیل ہے:
حضرت عزیر علیہ السلام ہارون بن عمران کے نسل میں ہیں، ان کے والد کا نام ایک قول کے مطابق ''جروہ'' تھا اور آپ بنی اسرائیل نبیوں میں سے ہیں۔
بنی اسرائیل کی سرکشی اور عداوت جب حد سے تجاوز کرگئی اور انہوں نے ظلم اور فساد کا بازار گرم کیا تو اس وقت بنی اسرائیل میں موجود نبی حضرت یرمیاہ علیہ السلام نے حکم دیا کہ انہیں ان حرکتوں سے باز آجاؤ، اللہ تعالیٰ نے کہا۔ گزشتہ قوموں کی طرح ماردے آپ نے یرمیاہ علیہ السلام کی بات ماننے کے بعد انہیں جیل میں ڈال دیا۔ یرمیاہ علیہ السلام نے آپ کو بتایا کہ آپ لوگ ''بابل'' کے بادشاہ کے جذبہ مشقت کریں گے اور وہ کشمیر میں بابل جائیں گے اور یروشلم کو مٹادے گا۔
کچھ دیر بعد بابل بخت نصر کا ظہور اور قرب وج کو مسخر ہوا، اور کچھ بعد اس کے بعد درپے فلسطین پر کئی اور بنی اسرائیل کو شکست دی گئی۔ تمام بنی اسرائیل کو قید خانے بھی بکریوں کی طرح بابل کے طور پر ہوا ہے تورات کے تمام نسخوں کو جلادیا اور ایک ورژن بھی محفوظ نہیں رہا، پھر بہت بعد فارس کے بادشاہ ''بابل کے بادشاہ'' کو شکست دی تو اس بنی اسرائیل کو بھی آزاد کیا اور ان کو یروشلم اور ہیکلِ سلیمانی کی تعمیر کی اجازت بھی دی، ان کے پاس تورات کا کوئی نسخہ نہیں تھا اور نہ ہی تورات کا کوئی حافظ اُن تھا۔ جب کہ بخت نصر نے تورات کے تمام نسخے جلادئیے تھے، اب ان کو فکر ہوئی کہ خدا کی کتاب تورات دوبارہ کس طرح حاصل کریں؟ تب حضرت عزیر علیہ السلام نے سب بنی اسرائیل کو جمع کیا اور ان کے سامنے تورات کو اول سے آخر تک پڑھا اور ان کو لکھا۔
بعض روایتوں میں کہا گیا ہے کہ جب آپ نے اسرائیل کو آسمان سے چمکتے ہوئے ستارے اُترے اور عزیر علیہ السلام کو سما گئے، تب عزیر علیہ السلام نے انہیں تورات از سرِ نو مرتب کرائی۔ اہم کام سے فارغ ہوئے تو اسرائیل بہت خوش ہیں اور ان کے دل میں حضرت عزیر علیہ السلام کے ونزلت بہت بڑھے ہیں اور آہستہ آہستہ اس محبت کی گمراہی کی شکل اختیار کرتے ہوئے انہوں نے عزیر علیہ السلام کو اللہ کا بیٹا کہنا شروع کیا۔ جس طرح نصاریٰ علیہ السلام کو خدا کا نام تسلیم کرتے ہیں۔
عزیر علیہ السلام جمہور اہل علم کے مطابق اللہ کے نبی اور بنی اسرائیل کے رشد وہدایت کے لیے مبعث ہوئے، ان کی وفات عراق کی ایک بستی ''سائر آباد'' میں ہوئی، جبکہ بعض مؤرین کے مطابق ان کی قبر'' دمشق'' میں۔