حضرت لوط علیہ السلام

قرآن مجید میں حضرت لوط علیہ السلام کا ذکر مبارک ستائیس (27) آپ آیا ہے، جس کی تفصیل درج ذیل ہے:

حضرت لوط علیہ السلام حضرت ابراہیم علیہ السلام کے بھتیجے تھے، ان کے والد کا نام ''ہاران'' تھا، ان کا بچپن حضرت ابراہیم علیہ السلام کے زیرِ سایہ گزرا، ان کی تربیت ابراہیم علیہ السلام نے ہی کی۔ اور سارہؓ ''ملتِ ابراہیمی'' کے پہلے نمبر میں شمار ہوتے ہیں۔ حضرت لوط علیہ السلام اور حضرت ابراہیم علیہ السلام کے ہجرت میں ان کے ساتھ ہیں، حضرت ابراہیم علیہ السلام ان کے بعد رضامندی سے الگ ہو گئے، کیوں کہ ایک محدود علاقہ ان دونوں کے جانور چرنے کے لیے کافی نہیں تھا۔ السلام تو بائر سبع (فلسطین) میں مقیم نکلے، لیکن حضرت لوط علیہ السلام اردن میں بحیرۂ لوط کے پاس جہاں سدوم اور عامورہ کی بستیاں، وہاں آکر قوم کی تصورات۔

حضرت لوط علیہ السلام نے جب سدوم میں آکر قیام کیا تو دیکھا کہ یہاں کے باکے فواحش اور بہت سے لوگ ہیں، دنیا کی کوئی برائی نہیں تھی جو اُن میں موجود نہیں تھی، یہ دنیا کی سرکش، متِّد اور بداخلاق قوم تھی۔ ان سب برائیوں کے ساتھ یہ قوم ایک خبیث عمل کی موجد بھی تھی، کہ وہ اپنی نفسانی تلاش کرنے کے لیے عورت کے لڑکوں سے اختلاط کرتے تھے، دنیا کی قوموں میں اس عمل کا اب تک کوئی رواج نہیں تھا۔ ۔ وہ بدکردار قوم تھی جس نے اس ناپاک عمل کو شروع کیا تھا اور اس سے بھی زیادہ بےحیائی تھی کہ وہ اپنی بدکرداری کو عیب نہیں مانتے تھے، بلکہ کھلم کھلا فخر کے ساتھ اس کو رہتے ہیں۔

حضرت لوط علیہ السلام کے بعد یہاں اللہ تعالیٰ نے انہیں اہلِ سدوم کے لیے نبی مبعوث فرمایا، ان حالات میں حضرت لوط علیہ السلام نے اس قوم کو ان کی بے حیایوں اور برائیوں پر ملامت کی اور شرافت وطہارت کی زندگی کی دلائی اور ہر ممکن طریقے سے نرمی اور پیار سے انہیں سمجھایا اور نصیحتیں کیں، اور پچھلی قوموں کی بداعمالیوں کے نتائج آئے اور ان پر عذاب نازل ہوئے، لیکن ان پر کوئی اثر نہیں ہوا، بلکہ اُلٹا طنز کرتے ہوئے اس پر کوئی اثر نہیں ہوا۔ کہ: ''یہ بڑے پاکباز لوگ ہیں، ان کو اپنی بستی سے دو۔'' اور بارہا سمجھانے کے بعد یہ کہتے ہیں: ہم نہیں مانتے، اگر تو سچا ہے تو ہم اللہ کا عذاب لے آئے، اِدھر یہ صنعت۔ اور دوسری طرف حضرت ابراہیم علیہ السلام کے پاس اللہ کے فرشتے انسانی شکل میں آئے۔ ابراہیم علیہ السلام نے انہیں سمجھ کر کیاضع کرانی چاہی، لیکن کھانے سے یہ بات حضرت ابراہیم علیہ السلام کو سمجھے کہ یہ کوئی دشمن ہے جو حسبِ دستور کھانے سے، اور پریشان ہونے سے۔ تو گھبرانے والوں نے کہا کہ آپ اللہ کے فرشتے ہیں، قومِ کی تباہی کے لیے بھیجے گئے ہیں۔ ابراہیم علیہ السلام نے کہا: تم بھی قوم کو مارنے علیہ ہو جس میں لوط السلام خدا کا برگزیدہ نبی موجود ہے؟ انہوں نے کہا: ہمیں معلوم ہے، لیکن اللہ کا فیصلہ ہے کہ قومِ لوط اپنی بے حیا اور فواحش پر اصرار کی وجہ سے ضرور مارے اور لوط اور ان کے خاندان کے عذاب سے محفوط رہے، سوائے لوط ؑ کی بیوی۔ وہ قوم اور بداعمالیوں میں شرکت کی وجہ سے عذاب کی حمایت میں

فرشتہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کے پاس سے روانہ سے سدوم اور لوط علیہ السلام یہاں یاد کرتے ہوئے اور یہ فرش حسین اور نوجوان لڑکوں کی شکل میں خوبصورت تھے۔ لوط علیہ السلام نے ان کو دیکھا تو بہت پریشان ہوئے کہ اب قوم ان کے ساتھ نہیں چلے گی؟ ابھی وہ لوگ تھے کہ قوم کو خبریں دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ لوط علیہ السلام نے ان کا حوالہ دے کر جواب دیا، لوط علیہ السلام نے انہیں بہت سمجھا لیکن وہ نہ مانے، تو انہوں نے سخت بات کی۔ کہا: کاش! میں کسی مضبوط سہارے کی حمایت حاصل کرتا ہوں!! ۔

فرشتوں نے اُن کو پریشان کر کے کہا کہ آپ گھبرائیں نہیں، ہم لوگ نہیں، بلکہ اللہ کی طرف سے فرشتے بھیجتے ہیں، اور ان کے عذاب کے لیے آپ راتوں رات اپنے خاندان سے رخصت ہو جاتے ہیں۔ فرشتوں کے پیغام کے بعد لوطعلیہ السلام اپنے خاندان سے دوسری جانب سے سدوم سے رخصت ہوئے اور ان کی بیوی نے ان کی رفاقت سے بات کر دی اور یہ رہ گئے۔ جب رات کا آخری پہر ہوا تو عذاب شروع ہوا، سب سے پہلے ایک سخت ہیبت ناک نے اُن کو تہہ وبالاکردیا، پھر ان کی آبادی کو اوپر اُٹھا کر زمین کی طرف اُلٹ دیا گیا، اور پھر اوپر سے پتھروں کی بارش ہوئی۔ نام ونشان مٹادیا، اور گزشتہ قوموں کی طرح یہ بھی اپنی سرکشی کی وجہ سے انجام دینے کو۔

حضرت لوط علیہ السلام سدوم سے ہجرت استقلال ضُغری میں گئے جو سدوم کے قریب ہی آباد تھی، پھر ضغر بھی چھوڑ دیا اور اس کے قریب قریب ایک جاکر آباد ہوئے اور وہ اُن کا انتقال کر گئے۔