مسجد الاقصیٰ
قرآن مجید میں المسجد الأقصٰی ''کاذکر ایک بات آئی ہے، جس کی تفصیل درج ذیل ہے:
مسجدِ اقصیٰ کا قبلہ اول اور خانہ کعبہ اور مسجدِ نبوی کے بعد تیسرا مقدس مقام بیت المقدس میں واقع ہے۔ اس مسجد میں نماز ادا کی گئی ہے، جبکہ مسجد میں نماز ادا کرنے کے لیے بھی آپ کو نماز ادا کی گئی ہے۔ فضاؤں کے سفر پر روانہ ہوئے۔ جب عمر فاروق کے دور میں بیت المقدس فتح کیا تو حضرت عمر نے شہر سے روانگی کے وقت صخرہ اور براق ہونے کی جگہ قریب واقع مسجد کی تعمیر کا حکم دیا، جہاں انہوں نے اپنے ساتھیوں سے دعا مانگی۔ مسجدِ اقصٰی سے بالکل قریب ہونے کی وجہ سے آپ کو مسجد اقصٰی کہلائی، قرآن مجید کی سورۂ بنی اسرائیل کے آغاز میں اس مقام کو مسجدِ اقصٰی کہا گیا۔ اس دور میں بہت سے صحابہؓ نے تبلیغِ اسلام اور اشاعتِ دین کی خاطر بیت المقدس میں اقامت اختیار کیا۔
مسجدِاقصٰی کی بنی حضرت یعقوبکو مانا جاتا ہے اور اس کی تجدید حضرت سلیمان نے کی، بعد میں خلیفہ عبدالملک بن مروان نے مسجدِ اقصٰی کی تعمیر شروع کی اور خلیفہ ولید بن عبد الملک نے اس کی تعمیر مکمل کی اور اس کی تزئین و آرائش کی ۔ عباسی خلیفہ ابو جعفر منصور نے بھی اس مسجد کی مرمت کرائی۔ پہلی جنگ کے بعد جب عیسائیوں کا بیت المقدس پر واقع ہو گیا تو انہوں نے مسجدِ اقصٰی میں بہت رد و بدل کیا۔ صلاح الدین ایوبی نے 1187ء میں فتح بیت کے بعد مسجدِ اقصٰی سلطان کو عیسائیوں کے تمام نشانات پاک کیااور محراب اور مسجد کو دوبارہ تعمیر کیا، لیکن اب یہ اسرائیل کے اسرائیل میں ہیں۔