آہلی روم
قرآن مجید میں اہلِ روم کاذکر ایک آیا، جس کی تفصیل درج ذیل ہے:
روم اطالیہ کا دار الحکومت، ملک کا سب سے بڑا شہر اور مرکزی اطالیہ کے علاقے لازیو کا صدر مقام۔ شہر کی بنیاد آٹھاز صعود قبل مسیح میں پڑی۔ رومی بادشاہت کا دار الحکومت بنا (جس پر روایات کے مطابق بادشاہوں کی ساتوں پشتوں نے حکومت کی) اور پھر رومی جمہوریہ کا دار الحکومت بنا (جس میں اوِنِ بالا یا ریاست کو زیادہ اختیارات حاصل تھے) اور بالآخر رومی سلطنت کا دار الحکومت بنا (جس پر شہنشاہ حکومت کرتے تھے)۔ روم کی برتری ثابت یورپ اور بحرۂ روم کے ساحلوں پر ترقی ہوئی، تقریباً ایک ہزار سال تک مغربی دنیا کا سب اہم سیاسی مرکز، امیر ترین اور سب سے بڑا شہر ہو
ہجرت سے قبل جب حضور پر نور (ع) مکہ مکرمہ تھے تو فارس اور روم میں جنگ ہوئی اور اہلِ فارس اہل روم پر غالب آگئے۔ مشرکینِ مکہ اس بات کو پسند کرتے تھے کہ فارس، روم پر غالب ہوں، کیونکہ اہلِ فارس اہلِ مکہ کی طرح مشرک تھے اور مسلمان اس بات کو پسند کرتے تھے کہ اہل روم فارس پر غالب ہوں، اس کے لیے اہلِ روم نصرانی انبیاء تھے۔ o) ماننے والے اور دینِ اسلام کے پاس پہنچے۔ فارس کی فتح سے کفارِ قریش کو بہت خوشی ہوئی اور یہ کہنا شروع کر دیا کہ تم بھی اہل کتاب کے مدعی ہونے اور رومی بھی اہل کتاب اور اہلِ فارس کمپنی کے مشرک ہیں اور ہم دونوں اُمی بھی ہیں۔ اس سے یہ فال لیتے ہیں کہ جس طرح آج ہمارے بھائی آپ پر غالب آئیں گے، اسی طرح ہم بھی ایک دن آپ پر غالب آئیں گے، تو اللہ تعالیٰ نے قرآن کی آیتیں نازل فرمائیں اور دو پیشین تجویزیں فرمائیں، پہلی پیشین تو فارس۔ روم کی سلطنت سے متعلق فرمان ہے کہ رومی فی الحال مغلوب تباہ، لیکن چند ایک کے اندر رومی فارسی پر غالب آجائیں اس پیشین مشورے سے ایک قسم کا ڈھانچہ بند ہو گیا، دوسری پیش کش کے حق کی درخواست نے سال کے لیے چند ایک حکم دیا کہ مسلمان بھی درست ثابت ہوں گے اور کافروں پر غالب آجائیں گے، یہ دونوں پیشین سفارشات پوری طرح سے پیش کریں گے اور پوری دنیا اس کی صداقت کا مشاہدہ کرنے والوں نے اپنے الفاظ میں کہا کہ جس دن کو بدر میں کامیابی نصیب ہوئی، اس دن رومیوں نے اہلِ فارس کو شکست دی۔