HAZRAT MOOSA (P.B.U.H)

قرآن مجید میں حضرت موسیٰ علیہ السلام کا ذکر مبارک ایک سو چھتیس (136) مرتبہ آیا ہے، جس کی تفصیل درج ذیل ہے:حضرت موسیٰ علیہ السلام کے والد کا نام ’’عمران‘‘ اور والدہ کا نام ’’یوکابد‘‘ تھا، حضرت ہارون علیہ السلام ‘ حضرت موسیٰ علیہ السلام کے حقیقی اور بڑے بھائی تھے۔ ان کا سلسلۂ نسب یہ ہے: ’’موسیٰ بن عمران بن قاہت بن لاوی بن یعقوب علیہ السلام۔‘‘

 آپ جنوبی مصر کے دارالحکومت طیبہ (تھیبس) میں پیدا ہوئے، جسے آج کل ’’الاقصُر‘‘ کہا جاتا ہے، یہ وہ دور تھا جب مصر میں ایک نہایت متعصب قبطی النسل خاندان برسرِ اقتدار تھا، جس نے بنی اسرائیل پر مظالم ڈھائے ہوئے تھے، اور ان کا بادشاہ یہ اعلان کرچکاتھا کہ جو بھی اسرائیلی بچہ پیدا ہو اُس کو قتل کردیا جائے۔ اسی وجہ سے موسیٰ علیہ السلام کے والدین نے آپ کی ولادت کو کچھ عرصہ تک مخفی رکھا ، لیکن حالات کی وجہ سے زیادہ عرصہ پوشیدہ رکھنا ممکن نہ تھا تو اللہ نے آپ کی والدہ کے دل میں یہ الہام کیا کہ ’’موسیٰ کو صندوق میں ڈال کر دریا میں پھینک دو، ہم اس کی حفاظت بھی کریں گے اور اسے تیرے پاس واپس بھی لائیں گے۔‘‘ موسیٰعلیہ السلام کی والدہ نے الہامِ خداوندی سے ایسا ہی کیا، یوں وہ صندوق پانی میں تیرتے ہوئے فرعون کے محل کے پاس پہنچ گیا، فرعون کے گھر والوں نے اس کو اُٹھایا اور اس کی بیوی نے فرعون سے کہا کہ اس کو قتل نہ کرو، یہ معصوم بچہ ہے، اس کو ہم اپنا بیٹا بنالیں گے۔ فرعون اس پر رضامند ہوگیا، اب اس بچہ کے لیے فرعون کے گھروالوں نے دودھ پلانے والی تلاش کرنا شروع کی، لیکن بچہ کسی کا دودھ نہیں پیتا تھا، سب دایاؤں نے کوشش کی، اور آخر کار تھک کر بیٹھ گئیں، اُدھر دوسری طرف موسیٰ علیہ السلام کی والدہ نے اپنی بیٹی کو اس صندوق کی خبر گیری کے لیے بھیجا تھا، وہ دور سے سب تماشا دیکھ رہی تھی، اس نے کہا کہ میں ایک ایسی دایہ کا پتہ بتاؤں جو نہایت نیک اور اس خدمت کے لیے انتہائی موزوں ہے، انہوں نے کہا: ضرور ، یہ تو ہم پر احسان ہوگا، تو موسیٰ علیہ السلام کی بہن اپنی ماں کو لے آئی، اور یوں اللہ تعالیٰ نے اپنا وعدہ پورا کردیا کہ موسیٰ علیہ السلام کو دوبارہ ان کی ماں کی آغوش میں دے دیا۔

 الغرض موسیٰ علیہ السلام کی پرورش فرعون کے گھر میں ہوئی، اس کی بیوی آسیہ تھی جو مسلمان تھی، فرعون کسی آدمی کا نام نہیں ہے، بلکہ فرعون مصر کے بادشاہوں کا لقب ہے۔ فرعون کے اصل نام میں قدیم مؤرخین کہتے ہیں کہ اس کا نام ولید بن مصعب بن ریان یا مصعب بن ریان تھا۔ بعض کہتے ہیں کہ اس کا نام ریان تھا، اس کی کنیت ابو مرہ تھی، جب کہ جدید تحقیق کے مطابق موسیٰ علیہ السلام کے زمانہ کا فرعون رعمیس ثانی کا بیٹا منفتاح تھا اور اس میں یہ تفصیل بھی بیان کی گئی ہے کہ قرآن میں موسیٰ علیہ السلام کے زمانہ کے جن فرعون کا ذکر ہے وہ دو فرعون ہیں، ایک رعمیس ثانی ، یہ وہ تھا جس نے موسیٰ علیہ السلام کی پرورش کی، اور پھر بڑے ہونے کے بعد اس نے اپنے بیٹے کو بادشاہت دے دی اور اس کے بیٹے کا نا م ’’منفتاح‘‘ تھا، حضرت موسیٰ اور ہارون علیھم السلام نے جس کو دعوت دی اور جو پانی میں غرق ہوا وہ یہی رعمیس ثانی کا بیٹا منفتاح تھا۔

 موسیٰ علیہ السلام جوان ہوئے تو انتہائی طاقت ور اور بارعب شخص نظر آتے تھے، انہیں یہ بھی معلوم ہوگیا کہ وہ بنی اسرائیل سے ہیں ، اور وہ آئے دن قبطیوں کے بنی اسرائیل پر مظالم دیکھتے تھے، ان کا خون کھولتا تھا اور وہ موقع ملتے ہی بنی اسرائیلیوں کی مدد کرتے تھے۔ اسی اثناء میں ایک مرتبہ موسیٰ علیہ السلام نے دیکھا کہ ایک قبطی ، بنی اسرائیل کے ایک شخص کو مار رہا ہے، اسرائیلی نے موسیٰ علیہ السلام سے مدد مانگی، موسیٰعلیہ السلام نے مصری کو سمجھایا، لیکن وہ نہ مانا تو آپ نے اس کو ایک تھپڑ مارا جس سے وہ مرگیا۔ آپ یہ دیکھ کر نادم ہوئے اور کہا کہ یہ شیطان کا عمل ہے، ادھر شہر میں یہ خبر پھیل گئی اور قاتل کی تلاش شروع ہوگئی ، اس ڈر سے موسیٰ علیہ السلام نے مصر سے ہجرت کی اور مدین چلے گئے ، جہاں شعیب علیہ السلام نے ان کی میزبانی کی۔

موسیٰ علیہ السلامنے شعیب علیہ السلام کو پورا قصہ سنایا ، تو شعیب علیہ السلام نے کہا: ڈرنے کی ضرورت نہیں، آپ یہاں رہ جائیں، اورکہا کہ اگر تم آٹھ سال تک میری بکریاں چراؤ تو میں اپنی بیٹی کی شادی تم سے کرادوں گا، اگر دو سال بڑھا دو تو یہ تمہاری طرف سے احسان ہوگا۔ موسیٰ علیہ السلاماس کو مان گئے، پھر دس سال مدت مکمل ہونے کے بعد موسیٰ علیہ السلامکی شادی شعیب علیہ السلامکی بیٹی سے ہوگئی ، اس کا نام ’’صفوراء‘‘ تھا۔

شادی کے بعد ایک روز موسیٰ علیہ السلاماپنے اہل وعیال کے ساتھ وادیِ سینا میں بکریاں چرا رہے تھے کہ رات ہوگئی، سخت سردی کی رات تھی ، آگ کی ضرورت ہوئی، سامنے طور پہاڑ پر روشنی نظر آئی تو آپ اپنی اہلیہ کو وہیں چھوڑ کر آگ لینے چلے گئے، وہاں پہنچے تو اللہ تعالیٰ نے نبوت سے سرفراز کیا، اور فرعون کے پاس جاکر اسے دعوت دینے اور بنی اسرائیل کو فرعون کی غلامی سے چھٹکارا دلانے کے لیے مصر جانے کا حکم دیا، اور اپنی بات ثابت کرنے کے لیے اپنے معجزے بھی عطا کیے، اور آپ کی درخواست پر آپ کے بھائی ہارونعلیہ السلام کو بھی آپ کے ساتھ کردیا اور اُن کو بھی نبوت عطا کی، حضرت ہارون علیہ السلام مصر میں ہی موجود تھے۔

 پھر موسیٰ اور ہارونعلیھم السلام دونوں فرعون کے پاس گئے اور انہیں دعوتِ حق دی، اور ان کو اللہ کے معجزات بھی بتلائے، مگر فرعون نے نہیں مانا، اور بنی اسرائیل کو غلامی سے رہا کرنے پر آمادہ نہ ہوا اور درباریوں کے مشورہ پر جادوگروں کو جمع کیا کہ موسیٰ علیہ السلامکے معجزوں کا مقابلہ کریں۔ موسیٰ علیہ السلام کو دو معجزے عطا کیے گئے تھے، ایک تو یہ کہ وہ اپنی لاٹھی زمین پر مارتے تو وہ اژدھا بن جاتا، اور دوسرا یہ کہ اپنا ہاتھ بازو میں ڈال کر نکالتے، وہ آفتاب نما چمکتا تھا، غرض جادوگر جمع ہوئے اور انہوں نے اپنا کرتب دکھایا، لیکن جب موسیٰ علیہ السلامنے اپنی لاٹھی پھینکی تو وہ اژدھا بن گیا اور ان کے جادو کے سب سانپ کھا گیا، جادوگر یہ دیکھ کر یقین کرگئے کہ یہ جادو نہیں، بلکہ معجزہ ہے، اور وہ سب ایمان لے آئے، مگر پھر بھی فرعون کو غرور آڑے آیا اوروہ مسلمان نہیں ہوا۔ اور پھر موسیٰعلیہ السلام راتوں رات بنی اسرائیل کو لے کر مصر سے چل دیئے، فرعون نے اپنے لشکر سمیت پیچھا کیا ، آگے بحرِ قلزم آگیا، موسیٰ علیہ السلام نے اللہ کے حکم سے لاٹھی ماری جس سے اس دریا میں راستے بن گئے، بنی اسرائیل سب اس میں سے پار ہوگئے۔ فرعون نے جب یہ دیکھاتو اپنے لشکر کو بھی حکم دیا کہ اس راستے پر چلو، چنانچہ جب مصریوں کا لشکر بیچ دریا میں پہنچا تو دریا اللہ کے حکم سے پہلی حالت پر آگیا ، اور فرعون اپنے لشکر سمیت پانی میں غرق ہوگیا۔ اس کے بعد موسیٰ علیہ السلام بنی اسرائیل کو لے کر سیناء گئے اور پھر آپ طور پہاڑ پر تشریف لے گئے اور وہاں آپ کو تورات ملی ، اس کے بعد بنی اسرائیل کو وادی تیہ لے آئے ، اور انہیں اللہ کی طرف سے ارضِ مقدس میں داخل ہونے کا حکم ہوا کہ ان سے جہاد کرکے اپنے آباء واجداد کی زمین حاصل کریں، لیکن بنی اسرائیل اس کے لیے تیار نہ ہوئے، جس کی پاداش میں انہیں یہ سزا دی گئی کہ وہ چالیس سال اسی میدانِ تیہ میں بھٹکتے رہیں گے۔ اسی میدانِ تیہ میں 120 سال کی عمر میں حضرت موسیٰ علیہ السلام کا انتقال ہوا، اریحا میں سرخ ٹیلہ کے قریب ان کی قبر ہے۔