HAZRAT ADAM (P.B.U.H)
قرآن مجید میں حضرت آدم علیہ السلام کا ذکر مبارک پچیس مرتبہ آیا ہے، جس کی تفصیل درج ذیل ہ
قرآن مجید میں انبیاء کرام علیھم السلام کے تذکروں میں سب سے پہلے حضرت آدم علیہ السلام کا ذکر ہے، حضرت آدم علیہ السلام سب سے پہلے انسان اور سب سے پہلے نبی ہیں۔ آپ ہی سے انسانی نسل چلی، اس لیے آدم علیہ السلام کو ’’ابو البشر‘‘ یعنی انسانوں کا باپ بھی کہتے ہیں۔
اللہ تعالیٰ نے حضرت آدم علیہ السلام کو مٹی سے پیدا کیا اور ان کا خمیر تیار ہونے سے پہلے ہی فرشتوں کو اطلاع دی کہ عنقریب وہ مٹی سے ایک مخلوق پیدا کرنے والے ہیں جو’’ بشر‘‘ کہلائے گی اور زمین میں میری خلافت کا شرف حاصل کرے گی۔
آدم علیہ السلام کا خمیر مٹی سے گوندھا گیا اور ایسی مٹی سے گوندھا گیا جو نت نئی، ہر قسم کی تبدیلی قبول کرنے والی تھی۔ جب یہ مٹی پختہ ہوکر ٹھیکری کی طرح آواز کرنے اور کھنکھنانے لگی تو اللہ تعالیٰ نے اس جسد ِ خاکی میں روح پھونکی اور وہ اِک دم گوشت پوست، ہڈی اور پٹھے کا زندہ انسان بن گیا، اور ارادہ، شعور، حس اور وجدانی جذبات وکیفیات کا حامل نظر آنے لگا۔ اس کے بعد فرشتوں کو حکم ہوا کہ اس کے سامنے سجدہ کرو، فوراً تمام فرشتوں نے حکم کی تعمیل کی، مگر ابلیس (شیطان) نے غرور اور تکبر کی وجہ سے صاف انکار کردیا، اور ابدی ہلاکت وجہنم کا مستحق ٹھہرا، اور ہمیشہ کے لیے ذلیل وخوار ہوگیا۔
حضرت آدم علیہ السلام ایک عرصہ تک تنہا زندگی بسر کرتے رہے، مگر اپنی زندگی میں ایک وحشت اور اکیلا پن محسوس کرتے تھے، ان کی طبیعت و فطرت، راحت وسکون کے لیے کسی ہمدم ورفیق کی متلاشی نظر آتی تھی، چنانچہ اللہ تعالیٰ نے حضرت حواء [ کو پیدا کیا تو حضرت آدم علیہ السلام اپنا ہمدم اور رفیق پاکر بے حد خوش ہوئے اور قلبی سکون اور اطمینان محسوس کیا۔ حضرت آدم اور حواء علیھا السلام کو اجازت تھی کی وہ جنت میں رہیں اور اس کی ہر چیز سے فائدہ اُٹھائیں، مگر ایک درخت کو معین کرکے بتایا گیا کہ اس سے نہ کھائیں، بلکہ اس کے قریب بھی نہ جائیں۔ شیطان نے موقع پاکر حضرت آدم وحواء علیھم السلام کے دل میں یہ وسوسہ ڈالا کہ یہ درخت ’’شجرۃ الخلد‘‘ ہے، اس کا پھل کھانے سے ہمیشہ جنت کے آرام وسکون میں رہو گے اور اس سے اللہ کا قر ب حاصل ہوگا، اور قسمیں کھاکھا کر ان کو باور کرایا کہ میں تمہارا خیر خواہ ہوں، یہ سن کر حضرت آدم علیہ السلام کے انسانی اور بشری خواص میں سے سب سے پہلے نسیان (بھول چوک) کا ظہور ہوا؟؟؟، اور انہوں نے اس درخت کا پھل کھالیا، اس کے کھاتے ہی بشری وانسانی لوازم اُبھرنے لگے، دیکھا تو ننگے ہیں اور لباس سے محروم، جلدی جلدی دونوں (آدم وحو ا علیھم السلام) پتوں سے ستر ڈھانکنے لگے، اور اوپر سے اللہ تعالیٰ کا عتاب نازل ہوا اور باز پرس ہوئی کہ میرے حکم سے عدول کیوں کیا ؟ آدم آخر آدم تھے، بارگاہِ الٰہی میں مقبول تھے، فوراً ندامت وشرم ساری سے اقرار کیا کہ بشری تقاضے بھول چوک کی وجہ سے غلطی ہوگئی، توبہ واستغفار کرتے ہوئے معافی مانگی، اللہ تعالیٰ نے عذر قبول فرماکر معاف کردیا، مگر وقت آگیا تھا کہ حضرت آدم علیہ السلام خد ا کی زمین پر حقِ خلافت ادا کریں، اس لیے بہ تقاضۂ حکمت ، ساتھ ہی یہ فیصلہ سنایا کہ تمہیں اور تمہاری اولاد کو ایک معین وقت تک زمین پر قیام کرنا ہوگا، اور شیطان تمہارا دشمن ہوگا، اور تم اور تمہاری اولاد ، مخلص بندے اور سچے نائب ثابت ہوئے تو تمہارا اصل وطن جنت ہمیشہ کے لیے تمہاری ملکیت میں دے دیا جائے گا۔
اس طرح انسانوں کے باپ ، اور اللہ تعالیٰ کے خلیفہ آدمعلیہ السلام نے اپنی رفیقۂ حیات حوا [ کے ساتھ خدا تعالیٰ کی زمین پر قدم رکھا، بعض علماء کا کہنا ہے کہ حضرت آدم اور حوا علیھم السلام دونوں زمین پر ایک ہی جگہ اُتارے گئے، جبکہ بعض روایات کے مطابق حضرت آدمعلیہ السلام ہندوستان کی سرزمین پر اور حضرت حوا[ جدہ کی سرزمین پر اُتاری گئیں، پھر چل کر دونوں عرفات کے میدان میں ایک دوسرے سے جاملے۔ ہندوستان میں حضر ت آدم علیہ السلام علاقہ سیلون کے جزیرہ سراندیپ میں بوذر پہاڑ پر اُترے ، اب یہ علاقہ سری لنکا کی حدود میں آتا ہے۔