Bakah
قرآن مجید میں ’’بکۃ‘‘ کاذکر ایک مرتبہ آیا ہے، جس کی تفصیل درج ذیل ہے:
اس سے مراد ’’مکۃ المکرمۃ ‘‘ ہے، ’’بک‘‘ اجتماع اور ازدحام کے معنی پر دلالت کرتا ہے، اس لیے مکہ کو ’’بکۃ‘‘ بھی کہتے ہیں، کیوں کہ لوگ اس کے اردگرد جمع ہوتے ہیں ،اور اسی طرح ’’بکۃ‘‘ کے معنی مغلوب کرنے اور گردن توڑنے کے ہیں اور مکہ نے کئی جابر اور ظالموں کی گردنیں توڑی ہیں، اس لیے اس کو’’بکۃ‘‘ کہتے ہیں۔امام طبری ؒ فرماتے ہیں: ’’کعبۃ اللہ‘‘ کے اردگرد مسجد حرام کے اندر کی جگہ ’’بکۃ‘‘ ہے اور اس کے باہر کا علاقہ مکہ مکرمہ ہے، جب کہ بعض دونوں میں کوئی فرق نہیں کرتے ۔