Al Masjid Al'Aqsaa
قرآن مجید میں ’’المسجد الأقصٰی‘‘ کاذکر ایک مرتبہ آیا ہے، جس کی تفصیل درج ذیل ہے:
مسجدِ اقصیٰ مسلمانوں کا قبلہ اول اور خانہ کعبہ اور مسجدِ نبوی کے بعد تیسرا مقدس ترین مقام ہے۔یہ مشرقی بیت المقدس میں واقع ہے۔ اس مسجد میں5ہزار نمازیوں کی گنجائش ہے، جبکہ مسجد کے صحن میں بھی ہزاروں افراد نماز ادا کرسکتے ہیں۔آپ a معراج کے سفر کے دوران مسجدِ حرام سے یہاں پہنچے تھے اور مسجدِ اقصیٰ میں تمام انبیاء o کی نماز کی امامت کرنے کے بعد براق کے ذریعے سات آسمانوں کے سفر پر روانہ ہوئے تھے۔ جب عمر فاروق t کے دور میں مسلمانوں نے بیت المقدس فتح کیا تو حضرت عمرt نے شہر سے روانگی کے وقت صخرہ اور براق باندھنے کی جگہ کے قریب مسجد تعمیر کرنے کا حکم دیا، جہاں انہوں نے اپنے ساتھیوں سمیت نماز ادا کی تھی۔ مسجدِ اقصٰی سے بالکل قریب ہونے کی وجہ سے یہی مسجد بعد میں مسجدِ اقصٰی کہلائی، کیونکہ قرآن مجید کی سورۂ بنی اسرائیل کے آغاز میں اس مقام کو مسجدِ اقصٰی کہا گیا ہے۔ اس دور میں بہت سے صحابہؓ نے تبلیغِ اسلام اور اشاعتِ دین کی خاطر بیت المقدس میں اقامت اختیار کی۔
مسجدِاقصٰی کا بانی حضرت یعقوبuکو مانا جاتا ہے اور اس کی تجدید حضرت سلیمان u نے کی، بعد میں خلیفہ عبدالملک بن مروان نے مسجدِ اقصٰی کی تعمیر شروع کرائی اور خلیفہ ولید بن عبد الملک نے اس کی تعمیر مکمل کی اور اس کی تزئین و آرائش کی۔ عباسی خلیفہ ابو جعفر منصور نے بھی اس مسجد کی مرمت کرائی۔ پہلی صلیبی جنگ کے بعد جب عیسائیوں کا بیت المقدس پر قبضہ ہو گیا تو انہوں نے مسجدِ اقصٰی میں بہت رد و بدل کیا ۔ سلطان صلاح الدین ایوبی aنے 1187ء میں فتح بیت المقدس کے بعد مسجدِ اقصٰی کو عیسائیوں کے تمام نشانات سے پاک کیااور محراب اور مسجد کو دوبارہ تعمیر کیا، لیکن اب یہ اسرائیل کے قبضہ میں ہے۔