حضرت یوسف علیہ السلام
قرآن مجید میں حضرت یوسف علیہ السلام کا ذکر مبارک ستائیس (27) آپ آیا ہے، جس کی تفصیل درج ذیل ہے:
حضرت یوسف علیہ السلام حضرت یعقوب علیہ السلام کے بیٹے حضرت اسحاق علیہ السلام اور حضرت ابراہیم علیہ السلام کے پوتے پوتے ہیں، آپ "حاران" میں پیدا ہوتے ہیں۔ آپ کے والد راحیل بنت لابانہ، آپ کے ماں کی طرف سے سگے بھائی بنیامین بن یعقوب۔ آپ سنِ داد کو پہنچ کر اپنے والد، دادا اور پردادا کی طرح اللہ کے نبی اور ملتِ ابراہیمی کی دعوت وتبلیغ کی خدمت نے آخر میں کہا۔ یعقوب علیہ السلام کو ان سے فطری طور پر بہت زیادہ محبت۔ حضرت یعقوب علیہ السلام کو حضرت یوسف علیہ السلام سے یہ والہانہ محبت ان کی دوسری اولاد کے لیے بے حد شکوک اور ناگوار گزرنا تھا، وہ ہر وقت یہ سوچتے تھے کہ یا تو حضرت یعقوب علیہ السلام کے دل سے اس محبت کو آگے بڑھاتے ہیں۔ پھر یوسف علیہ السلام کو ہی اپنے راستے سے ہٹا دیں، تاکہ یہ قصہ ہی ختم ہو جائیں۔ اسی اثناء میں ایک بار یوسف علیہ السلام نے خواب میں دیکھا کہ ستارے اور سورج اور چاند، ان کے سامنے سجدہ دکھاتے ہیں۔ یعقوب علیہ السلام نے جب خواب سنا تو ان کو سختی سے منع کیا کہ آپ یہ خواب آپ کو سنانا، ایسا نہ ہو کہ یہ سن کر تیرے بھائی تیرے کے ساتھ پیش آئے، کیوں کہ شیطان انسان کے ساتھ کھڑا ہوا، اور تیرا۔ خواب میں اپنی تعبیر میں بہت صاف اور صاف۔
آخر بھائیوں کی حسد کی آگ بھڑکتی رہی اور ایک دن انہوں نے یوسف علیہ السلام کے منصوبے کا فیصلہ کرنے کا فیصلہ کیا، آپ کے مقابلے کے بعد کھیلنے والے کو بہانے سے وہ لے گئے، اور ''دوتن'' کے مقام پر ایک اندھیرے کے خلاف۔ یوسف علیہ السلام کے قمیص کو کسی جانور کے خون میں تراشتے ہوئے اپنے والد کے پاس لے گئے اور انہیں قمیص دکھاتے ہوئے کہا کہ ہم آگے نکل گئے اور پیچھے سے یوسف کو بھی اُٹھا کر لے گئے۔ یعقوب علی علیہ السلام نے دیکھا کہ وہ صحیح سالم تھی، اس سے پھٹی نہ تھی، فوراً سب سمجھ گئے، اور کہا کہ تم پوری بات کرتے رہے ہیں۔
اُردن سے آنے والے ایک قافلے کا کنگز پاس ہوا اور انہوں نے کنجی سے پانی بھرنے کے لیے ڈول ڈالا تو یوسف علی علیہ السلام اس میں لٹک کر نکلے۔ انہوں نے آپ کو غلام بنالیا اور مصر لے گئے، اور مصر کے دارالحکومت افاریس (صان الحجر) میں یوسف علیہ السلام کو ایک شاہی خزانے کے افسر (عزیزِ مصر) ''فوطیفار'' نے خرید لیا اور اُسے گھر لے آیا، یوسف۔ السلام نے اس غلاموں کے ساتھ سلوک نہیں کیا، بلکہ اولاد کی طرح عزت واکرام سے رکھا اور گھر کی چیزیں بنادیا۔ اب یہاں آپ کی کیوئیہ شروع کے ساتھ، وہ یہ کہ یوسف علی علیہ السلام کا جوانی کا عالم تھا، حسن وخوبر کا کوئی دوسرا پہلو نہیں تھا، اس خوبصورت کے عصمت وحیا کی فراونی اس پر مزید، اور پھر ہر وقت کے ساتھ عزیزِ مصر کی بیوی کو بے قابو ہونے پر اور یوسف علیہ السلام کے وارث نثار ہونے لگے، لیکن خانوادۂ نبی کا چراغ اور منصبِ نبوی منتخب کرنے کے لیے یہ کیسے ممکن تھا۔ پورا کرتا ہے۔ جس کی وجہ سے اللہ کی مدد سے یوسف علیہ السلام سرخرو ہوتے ہوئے آخری دن انہیں ایک کمرہ میں بند کرتے ہیں، تاکہ اس کی پوری کوشش ہو، لیکن یوسف علیہ السلام وہاں سے فرار ہو جائیں، کسی طرح کھلا ہوا ہو۔ باہر نکلے تو سامنے عزیزِمصر کو واپس، توعزیزِ مصر کی بیوی نے فوراً اُن پر بہتان لگا دیا کہ کسی شخص کی قید میں قید یا دردناک عذاب کے علاوہ اور کیا خواب ہے جو تیرے گھر والوں کے ساتھ برائی کا ارادہ کرے گا؟ یوسف علی علیہ السلام نے جب اس کا مکرو فریب سنا تو کہا: یہ اس کا بہتان ہے۔ اصل میں یہ ہے کہ اس نے خود میرے ساتھ برائی کا ارادہ کیا تھا اور اس کے گھر کے فرد نے بھی اس کی تلاش کی تھی۔ مصرِ سمندر کو بھانپ گیا اور یوسفعلیہ السلام سے کہا: سچے تم ہو، یہ اسی عورت کا مکر و فریب ہے، بہرحال عزیزِ مصر کی بیوی اس بات کا چرچا ہے اور اس کو رسوائی کے راستے کے لیے یوسف علی کو جیل بھیج دیا ہے۔ دیا اور نو، دس سال آپ کو قید میں رکھا گیا ہے، قیدخانہ میں دو قیدیوں کو خوابیدہ بتائے، ان دونوں شخص کو قید میں رکھا گیا ہے، وہ بادشاہ کے ساقیوں کا سردار تھا، کئی سال بعد بادشاہ کا خواب سننا۔ اور بادشاہ کی اجازت جیل آکر یوسف علیہ السلام سے شاہی خواب کی تعبیر دریافت کرنا۔ یوسف علی علیہ السلام کی بتائی ہوئی تعبیر جب بادشاہ نے سنی تو یوسف علیہ السلام کو دربار میں بلالیہ، پھر انہیں نائب السلطنت کے عہدے پر فائز کیا گیا۔ یوسف علیہ السلام جب مصر میں نائب السلطنت چلے گئے تو انہوں نے کہا کہ شاہی خوابیدہ بن کر خوابیدہ ہو گئے ہیں، قرطاس کے پیش نظر بہترین انتظامی انتظامات، حتیٰ کہ ان کے سوتیلے بھائی کنعان غلہ سے مصر آئے، حضرت یوسف علیہ السلام کی واپسی پر وہ اگلے سال اُن کے بھائی بنیامین کو بھی لے آئے۔ حضرت یوسف علی علیہ السلام نے ایک بہانہ سے اس کو اپنے پاس روک لیا اور یوسف علی علیہ السلام کے علاتی بھائی جب بار مصر آئے، تب یوسف علی علیہ السلام کے بھائیوں نے آپ کا انکشاف کیا، اس پر دوسرے بھائی اپنے سابقہ رویہ پر بہت نادم ہوئے ہیں۔ پھر یوسف علی علیہ السلام نے اپنے والد یعقوب علیہ السلام کو بھی مصر بلوالی۔
حضرت یوسف علیہ السلام نے بنی اسرائیل اور حضرت یعقوب علیہ السلام کو ''بلبیس'' آج کل ''سفط الجنۃ'' کہا ہے کہ شمال کے جُشن کے علاقے میں آباد ہے۔
حضرت یوسف علیہ السلام نے 110 سال کی عمر میں حضرت پائی اور انتقال کے وقت بنی اسرائیل کو وصیت کی کہ مجھے مصر میں دفن نہ کرنا بلکہ جب اللہ نے یہ وعدہ پورا کیا تو بنی اسرائیل دوبارہ فلسطین یعنی آباء واجد کے سرزمین۔ میں واپس جا رہا ہوں وہاں سپردِ خاک کرنا، اس کے وصیت کے مطابق ان کے انتقال کے بعد بنی اسرائیل نے حنوطاکل تابوت محفوظ مقامات بحیرہ منزل کے پاس جُشن کے علاقے دفن میں، پھر جب موسیٰ علیہ السلام بنی۔ اسرائیل کو مصر سے فلسطین لے گئے، انہوں نے یوسف علی علیہ السلام کا تابوت بھی لے لیا اور انہیں فلسطین لے جاکر وہاں دفن مناظر۔ یاقوت حموی لکھتے ہیں : یوسف علیہ السلام کی قبر ''بلاطٰہ'' میں جو فلسطین کے علاقے نابلس کا ایک گاؤں ہے، ان کی قبر ایک درخت کے نیچے ہے۔