حضرت یونس علیہ السلام

قرآن مجید میں حضرت یونس علیہ السلام کا ذکر مبارک چار ہے، جس کی تفصیل درج ذیل ہے:

حضرت یونس علیہ السلام بنی اسرائیل نبی سے تھے، لیکن آپ کو عراق کے مشہور اور معروف ''نینویٰ'' کے پیچھے چھوڑنے کے راستے اور شہر کے لیے مبعوث کیا گیا تھا، نینویٰ آشوری حکومت کا پایۂ تخت اور موصل کا مرکزی شہر۔ تھا، آپ کے والد کا نام ''متّٰی''۔ اہل کتاب یونس علیہ السلام کا نام ''یوناہ'' اور ان کے والد کا نام ''امتی'' بتاتے ہیں، بظاہر یہ اختلاف صرف لفظی ہے، عربی اور عربی زبان کے فرق سے یہ تبدیلی۔

آپ کا زمانہ بعض مؤرخین کے مطابق اس وقت کا ہے جب ایران (فارس) میں طوائف الملوکی کا دور تھا، امام بخاری نے انبیاء علیھم السلام کا ذکر کیا ہے، اس میں یونس علیہ السلام کا ذکر حضرت موسیٰ وشعیب علیھم السلام کے بعد ہے۔ اور حضرت داؤدعلیہ السلام سے پہلے کیا؟

حضرت یونس علیہ السلام کی قوم کی تعداد ایک لاکھ سے زیادہ تھی، آپ اہلِ نینویٰ کو ایک طرف تبلیغ کرتے رہے، تو کی دعوت دیتے رہے، لیکن انہوں نے اس حق کی دعوت قبول نہیں کی۔ دعوت کا مذاق اُڑاتے رہے، مسلسل ان کے اور کفر پر اصرار کی وجہ سے یونس علیہ السلام ان کے نقصان سے اور تنگ آکر عذابِ الٰہی کی بددُعا کرتے رہے، اور پھر وحی کا انتظار وہاں سے روانہ ہو گیا۔ دریائے فرات کے لوگ تو ایک کشتی جانے کے لیے تیار کھڑے تھے، انہوں نے کہا کہ یونس علیہ السلام نے اس میں سوار ہونے کا اعلان کیا، کشتی لگی اور راستے میں طوفانی ہوا نے کشتی کو آگ لگائی اور کشتی کی طوفانی وجہ سے ڈگمگانے لگی اور کشمیری کو اپنے ڈوبنے کا یقین ہونا، تو وہ لو گ اپنے عقیدے کے مطابق:'' ایسا معلوم ہوتا ہے کہ کشتی میں کوئی اپنے غلام سے بھاگ گیا، جب تک اس کو کشتی سے بچانا مشکل ہے۔'' '

یونس علیہ السلام نے یہ سنا تو انہیں اللہ تعالیٰ نے محسوس کیا کہ اللہ کو نینویٰ سے وحی کا انتظار صرف اس طرح چلانا پسند نہیں ہے اور یہ میرے نشان کے آثار ہیں، یہ سوچ کر انہوں نے کہا کہ:'' غلام میں ہی ہوں، جو اپنے آقا سے بھاگا، مجھے کشتی سے باہر دو۔''

لیکن انہیں معلوم ہوا کہ ان کے بزرگ اور پاکبازی کے معترف تھے، وہ اس کے لیے تیار نہ ہوئے، اور آپ نے یہ فیصلہ کیا کہ قرعہ اندازی کی جائے، تینوں آپکی قرعہ اندازی کی گئی اور ہر خاتون یونس علیہ السلام۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے نام پر قرعہ نکلا، تب مجبور وہ یونس کو دریا میں ڈالنے پر راضی ہوا، پھر یونس علیہ السلام دریا میں کود گئے، اسی وقت خدا کے حکم سے ان کو ایک بڑی مچھلی نے انگل لیا، مچھلی کو حکم دیا۔ کہ یونس کو صرف نگلنا ہے، یہ تیری غذا نہیں ہے۔ یونس علیہ السلام نے مچھلی کے پیٹ میں ندامت کے ساتھ اپنے فعل پر اللہ سے معافی مانگی اور چالیس دن مچھلی کے پیٹ میں رہے اور اللہ کی تسبیح کرتے رہے اور معافی مانگتے رہے۔

اللہ نے توبہ کو قبول کر لیا اور مچھلی نے اللہ کا حکم دیا آپ کو ساحل کے پاس اُگل۔ مچھلی کے پیٹ میں لوگوں کی وجہ سے آپ کا حال بہت اچھا تھا، اللہ تعالیٰ نے وہاں پر جسم دار درخت اُگنے کے لیے وہ دنیا بھر میں اور اس میں سے ایک آرام دہ اور پرسکون ہو گئے، چند دن بعد صحت مند ہو گئے۔

دوسری طرف یہ ہوا کہ یونس علیہ السلام ''نینویٰ'' سے جانے کے بعد ان کی قوم نے جب عذاب کے کچھ آثار دیکھے اور یونس علیہ السلام کو چھوڑ کر جانے سے عذاب کا یقین نہیں آیا، تو وہ بہت ڈرتے ہیں۔ اور یونس علیہ السلام کو تلاش کرنے کے لیے ان کے ہاتھ پر انتہائی مسلمان، لیکن جب یونس علیہ السلام نہیں ملے تو وہ سب جمع میدان میں نکلے اور اللہ سے توبہ واستغفار نے کہا: اے اللہ! یونس علیہ السلام جو تیرا پیغام ہمارے پاس جواب دیتے ہیں ہم اس پر ایمان لاتے ہیں۔ اللہ نے ان کی توبہ قبول فرمائی اور ان کو دولتِ ایمان سے نوازا اور عذاب اُن سے دور۔

وہ واحد قوم ہے جس پر استغفار کی وجہ سے عذاب واپس آتا ہے۔

بہرحال تندرست ہونے کے بعد آپ علیہ السلام کو حکم ہو کہ وہ دوبارہ نینویٰ جائیں اور قوم میں رہ کر ان کی رہنمائی فرمائیں، حضرت یونس علیہ السلام دوبارہ اپنی بستی تشریف لے آئے، قوم کو دیکھ کر بے حد خوش ہوئی۔ سے دین ونیا رہنما کی کامیابی حاصل کرتی رہی۔

حضرت یونس علیہ السلام کی وفات نینویٰ میں ہی ہوئی اور آپ کی قبر۔