حضرت نوح علیہ السلام
قرآن مجید میں حضرت نوح علیہ السلام کا ذکر مبارک تینتالیس 43 مرتبہ آیا ہے، جس کی تفصیل درج ذیل ہے:
حضرت نوح علیہ السلام حضرت آدم علیہ السلام کے بعد پہلے نبی کو ''رسالت'' بھی عطا کی گئی، جس پر انسان خدا کی وحی ہو وہ ''نبی'' اور کو نئی شریعت بھی دی گئی۔ وہ ''رسول'' کہلاتا۔
حضرت نوح علیہ السلام کا نسب نامہ علم الانساب کے ماہرین نے بیان کیا ہے:
نوح بن لامک بن متوشالح بن اخنوخ بن یارد بن مہلائیل بن قینان بن انوش بن شیث بن آدم علیہ السلام۔
لیکن بہت سے علماء نے اس کی صحت میں شک کیا ہے، ان کے بقول حضرت آدم علیہ السلام اور حضرت نوح علیہ السلام کے درمیان بھی زیادہ مشقت ہے۔
حضرت آدم علیہ السلام کی وفات کے بعد تمام قوم اللہ کی توحید اور صحیح مذہب کی روشنی کسیسر ناشنا کی طرف سے تھی اور حقیقی خدا کی جگہ خود ساختہ بتوں نے لی تھی، لوگوں نے غیر اللہ کی پرستش شروع کردی۔ تھی اور وُدّ، سواع، یعوق، اور نسر نامی خود ساختہ باتوں کو معبود بنالیا تھا، تو اللہ تعالیٰ نے ان کی جگہ کے لیے حضرت نوح علیہ السلام کو اپنے رسول بنا کر مبعوث بنا لیا تھا۔ حضرت نوحعلیہ السلام کی قوم کا علاقہ دجلہ وفرات کے درمیان ''مابین النھرین'' یا ''میسو پوٹیمیا'' ہے، یہ موجودہ عراق کے کوفہ کے آس پاس کا علاقہ۔
حضرت نوح علیہ السلام نے اپنی قوم کو راہِ حق کی طرف متوجہ کیا، اور سچے مذہب کی دعوت دی، اور خدا وحدہ لاشریک لہ کی عبادت کی طرف بلایا اور بتوں کی پرستش سے منع کیا، لیکن قوم نے ہٹ دھرمی کی اور نوح علیہ السلام کو۔ دعوت کو نہ ماننے اور نفرت وحقارت سے حضور پر اصرار کیا، اور حضرت نوح علیہ السلام کی تحقیر اور تکذیب کا کوئی پہلو نہیں چھوڑا، اور انہوں نے کہا: اے نوح! تیرے پیروکار ہم میں سے اور ذلیل لوگ ہیں، تو پہلے ان کو اپنے پاس سے ہٹا دیں تو ہم تیری بات سنیں گے۔ حضرت نوح علیہ السلام کا جواب ہے کہ ایسا کبھی نہیں، یہ اللہ کے مخلص بندے ہیں۔ خود اللہ نو سو سال تک قوم کو کہتے ہیں، اور آخر میں آپ کی طرف سے دعا کی کہ: ''آئے! تو کافروں میں سے کسی کو بھی زمین پر باقی نہ چھوڑنا۔'' اللہ تعالیٰ نے دعا قبول فرمائی اور نوح علیہ السلام کو کشتی بنانے کی، نوح علیہ السلام کو کشتی بنانے، اُس کرمانی علیہ السلام کو دیکھنے کا حکم دیا۔ اپنے کام میں جب کشتی تیار تو اللہ کے عذاب سے ظاہر ہوتا ہے اور زمین کی تہہ سے پانی کا چشمہ اُبلنا شروع ہوا، تب اللہ نے حکم دیا کہ اپنے خاندان سے ایمان کو کشمیری میں سوار کردو، آپ نے خود ہی کیا تمام جانداروں سے ہر ایک کا جوڑا بھی سواری میں چلا گیا اور نوح علیہ السلام پر ایمان والی چھوٹی جماعت بھی سواری کے بعد اس کے بعد آسمان کے حکم کے مطابق پانی برسانا شروع ہو گیا۔ چشموں کو حکم ہے کہ وہ پوری طرح اُبل پڑیں، اور ایک سخت مرحلہ، جس کے نتیجے میں تمام منکرین ومعاندین اس عذاب میں غرق اور زمین کفر سے پاک۔
کشتی پانی میں تیرتی رہی اور طوفان ختم ہونے کے بعد ''جودی'' پہاڑ پر رک گئی، جودی دریائے دجلہ کے مشرقی ممالک پر جزیرۂ ابن عمر کے سامنے ایک شامی اور ترکی حدود، شام کے شہر کے شہر ہیں۔ 'عین دیوار' سے جودی صاف نظر آتا ہے، تورات کے مطابق جودی پاراراط جزیرہ میں، جو فرات اور ر دجلہ کے درمیان دیارِ بکر سے بغداد تک مسلسل چلا گیا۔
اور پھر زمین سے نیچے نیچے پانی خشک ہونا شروع ہوا، کشتی میں سوار انسانوں اور دیگر جانداروں نے دوسری بار امن و امان سے زمین پر قدم رکھا، اسی وجہ سے حضرت نوح علیہ السلام کا لقب ''ابوالبشر ثانی'' یعنی آدم ثانی لوگوں کا دوسرا باپ) مشہور ہے۔