حضرت آدم علیہ السلام

قرآن مجید میں آدم علیہ السلام کا ذکر مبارک پائیس حضرت آیا ہے، جس کی تفصیل درج ذیل ہے۔

قرآن مجید میں انبیاء کرام علیھم السلام کے تذکروں میں سب سے پہلے حضرت آدم علیہ السلام کا ذکر ہے، حضرت آدم علیہ السلام سب سے پہلے انسان اور سب سے پہلے نبی۔ آپ ہی سے انسانی نسل چلی، اس کے لیے آپ کو ''ابو البشر'' یعنی انسانوں کا باپ بھی کہتے ہیں۔

اللہ تعالیٰ نے حضرت آدم علیہ السلام کو مٹی سے پیدا کیا اور ان کا خمیر تیار ہونے سے پہلے ہی فرشتوں کو اطلاع دی کہ عنقریب وہ مٹی سے ایک مخلوق پیدا کرنے والے '' بشر '' اور زمین میں میریت کے خلاف ہیں۔ شرف حاصل کرنا

آدم علیہ السلام کا خمیر مٹی سے گوندھا گیا اور ایسی مٹی سے گوندھا گیا جو نئی، ہر قسم کی تبدیلی قبول کرنے والا ہے۔ جب یہ مٹی اس پختہ کی ٹھیکری کی طرح آواز دینے اور کھنکھنانے میں تو اللہ نے جس میں خاکی میں روح پھونکی اور وہ اِک دم گوشت پوست، اور پٹھے کا زندہ انسان بن گیا، اور ارادہ، شعور، وجدانی جذباتی وکیفیات۔ کا تصور محسوس کرنا۔ اس کے بعد فرشتوں کو ہوا کہ اس کے سامنے سجدہ کرو، فوراً تمام فرشتوں نے حکم کی تعمیل کی، لیکن ابلیس (شیطان) نے غرور تکبر کی وجہ سے صاف اور ابدی وجہ کا مستفتا، اور ہمیشہ۔ ذلیل وخوار کے لیے

حضرت آدم علیہ السلام ایک دوسرے تک زندہ رہتے ہیں، لیکن اپنی زندگی میں ایک وحشت اور اکیلا پن محسوس کرتے تھے، ان کی فطرت و فطرت، راحت وسکون کے لیے ہم کسی ورفیق متلاشی نظر آتے تھے، اللہ تعالیٰ نے۔ حواء [کو پیدا کیا تو حضرت آدم علیہ السلام ہمدم اور رفیق پاکر بے حد خوش ہوئے اور قلبی سکوت اور محسوس کرتے ہیں۔ حضرت آدم اور حواء علیھا السلام کو اجازت تھی کہ وہ جنت میں چلے جائیں اور اس کی ہر چیز سے اُٹھائیں، لیکن ایک درخت کو معین طاقت نے بتایا کہ اس سے نہ کھائیں بلکہ اس کے پاس بھی نہ جائیں۔ شیطان نے موقع پاکر حضرت آدم وحواء علیھم السلام کے دل میں یہ وسوسہ ڈالا کہ یہ درخت ''شجرۃ الخلد''، اس کا پھل کھانے سے ہمیشہ جنت کے آرام وسکون میں رہو گے اور اس سے اللہ کا قرب حاصل ہوگا۔ قسمیں کھا کر ان کو باور کرایا کہ میں تمہارا خیر خواہ ہوں، یہ سن کر حضرت آدم علیہ السلام اور بشری خواص میں سب سے پہلے نسیان (بھول چوک) کا ظہور ہوا اور انہوں نے اس درخت کا پھل کیا۔ کھالیا، اس کے آج کے ہی بشری وانسانی لوازم اُبنے تو دیکھا اور لباس سے شرم، اللہ تعالیٰ دونوں (آدم وحو ا علیھم) پتوں سے ستر جھکنے والے اور اوپر سے اللہ کا عتاب نازل ہوا اور باز پرس ہوئی۔ کہ میرے حکم سے عدول کیوں؟ آدم آخر آدم تھے، بارگاہِ الٰہی میں مقبول تھے، فوراً ندامت ورم پوری سے اقرار کیا کہ بشری تقاضے کی وجہ سے غلطی سے غلطی، توبہ واستغفار کرتے ہوئے معافی مانگی، اللہ نے عذر قبول کرنے کا حکم دیا، لیکن اس وقت آپ کا کہنا تھا۔ حضرت آدم علیہ السلام خدا کی زمین پر حق ادا کریں، اس کے لیے بہ تقاضۂ حکمت، یہ فیصلہ سناتے ہیں کہ آپ کو اور باپ کو ایک معین وقت تک زمین پر قیام کرنا ہے، اور شیطان آپ کو آپ سے دشمنی کرتا ہے۔ باپ اولاد، مخلص بندے اور سچے نائب ثابت ہوئے تو تمہارا اصل وطن ہمیشہ کے لیے اپنی ملکیت میں دے دیا جائے۔

اس طرح انسانوں کے باپ، اور اللہ کے خلیفہ آدم علیہ السلام نے اپنی رفیقۂ حیات حوا کے ساتھ خدا کی زمین پر قدم رکھا، بعض علماء کا کہنا ہے کہ حضرت آدم علیہ السلام اور حوا علیھم السلام دونوں زمین پر ایک جگہ اُتارے گئے ہیں۔ جبکہ بعض روایات کے مطابق حضرت آدم علیہ السلام ہندوستان کی سرزمین پر اور حضرت حوا[ جدہ کی سرزمین پر اُتاری علامت، پھر دونوں عرفات کے میدان میں ایک دوسرے سے جمل چلتے ہیں۔ میں حضر ت آدم السلام علیہ السلام ہندوستان سیلون کے جزیرہ سراندیپ میں بوذر پر اُترے، اب یہ علاقہ سریا کی حدود میں آتا ہے۔