Hazrat Dawood (P.B.U.H)

قرآن مجید میں حضرت داؤد علیہ السلام کا ذکر مبارک سولہ (16) مرتبہ آیا ہے، جس کی تفصیل درج ذیل ہے:حضرت داؤد علیہ السلام بنی اسرائیل کے نبیوں میں سے ہیں ، آپ یہودا بن یعقوب کی اولاد میں سے تھے، آپ کا سلسلہ نسب یہ ہے:’’داؤد بن ایشا بن عوبد بن عابر بن سلمون بن نحشون بن عونیاذب بن ارم بن حصرون بن فارص بن یہودا بن یعقوب علیہ السلام۔‘‘

ایشا کے بہت سے لڑکے تھے جن میں داؤد علیہ السلام سب سے چھوٹے بیٹے تھے، جنہیں اللہ تعالیٰ نے بادشاہت اور نبوت دونوں عطا فرمائیں۔ حضرت داؤد علیہ السلام سے پہلے بنی اسرائیل میں یہ سلسلہ قائم تھا کہ حکومت ایک خاندان سے وابستہ ہوتی تھی اور نبوت دوسرے خاندان سے، نبوت ’’یہودا ‘‘ کی نسل میں سے چلتی آئی تھی اور بادشاہت ’’افرائیم‘‘ کے خاندان میں سے چلتی آئی تھی، حضرت داؤد علیہ السلام وہ پہلے شخص ہیں جن کے اندر اللہ تعالیٰ نے یہ دونوں نعمتیں’’نبوت‘‘ اور’’بادشاہت‘‘ یکجا کردی تھیں۔

حضرت داؤد علیہ السلام کو بنی اسرائیل کی بادشاہت ملنے کا پس منظر یہ ہے کہ عمالقہ نے بنی اسرائیل سے فلسطین کے اکثر علاقے چھین لیے تھے، شموئیل علیہ السلام اس زمانہ میں بنی اسرائیل کے نبی تھے، مگر وہ بہت بوڑھے ہوچکے تھے، ان کے زمانہ میں جب عمالقہ کی دست درازیاں بڑھتی گئیں تو بنی اسرائیل نے ان سے درخواست کی کہ دشمنوں سے مقابلہ کے لیے ہم پر ایک بادشاہ مقرر کردیں، تاکہ ہم ان کے ساتھ مل کر جہاد کریں اور اپنے علاقے واپس لیں، تو ان کی درخواست پر حکمِ الٰہی کے مطابق حضرت شموئیل علیہ السلام نے قبیلہ بنیامین کے 30 سالہ نوجوان ’’طالوت‘‘ کو اُن پر بادشاہ مقرر کردیا، اور طالوت کی بادشاہت کی نشانی کے طور پر فرشتوں کے ذریعے وہ تابوتِ سکینہ بنی اسرائیل کو واپس مل گیا، جس میں تورات کا اصل نسخہ اور حضرت موسیٰ علیہ السلام وہارون علیہ السلام کی دیگر یادگاریں تھیں، جیسے عمالقہ چھین کر لے گئے تھے۔ طالوت بادشاہ بننے کے بعد بنی اسرائیل کا لشکر لے کر جہاد پر نکلے، راستے میں دریائے اُردن کی ایک ندی پر اللہ کی طرف سے آزمائش ہوئی کہ اس میں سے ایک چلو سے زیادہ پانی نہ پینا ، لیکن صرف چند لوگوں کے علاوہ باقی لوگ اس آزمائش میں کامیاب نہ ہوئے اور وہ میدان تک نہ پہنچ سکے ، اور صرف پختہ ایمان والے لوگ ہی میدانِ جنگ میں پہنچے، داؤد علیہ السلام ان میں ایک کم سن جوان تھے۔

 جنگ شروع ہوئی تو دشمن کی فوج کے پہلوان ’’جالوت‘‘ نے مقابلہ کی دعوت دی، تو بنی اسرائیل میں سے کسی کو ہمت نہیں ہوئی، اس وقت داؤد علیہ السلام اس کے مقابلے کے لیے نکلے اور تاک کر ایک دو پتھر جالوت کے سر پر مارے جس سے وہ چکرا گیا، پھر داؤدعلیہ السلامنے آگے بڑھ اس کی گردن کاٹ دی ،جس سے بنی اسرائیل کو مقابلہ میں فتح ہوگئی، اور داؤد علیہ السلام کی قدر ومنزلت بنی اسرائیل میں بہت زیادہ ہوگئی اور پھر حضرت داؤد علیہ السلام سے بنی اسرائیل کی بڑھتی ہوئی محبت کا نتیجہ یہ ہوا کہ انہوں نے طالوت کی موجودگی میں ہی یا اس کی موت کے بعد حکومت اور بادشاہت حضرت داؤد علیہ السلام کے سپرد کردی اور اس عرصہ میں خدا کا اُن پر ایک اور فضل ہوا کہ ان کو منصبِ نبوت ورسالت بھی عطا کیا گیا۔

 انبیاء کرامعلیھم السلام میں سے حضرت آدم علیہ السلام کے علاوہ صرف داؤد علیہ السلام ہی وہ پیغمبر ہیں جنہیں قرآن نے خلیفہ کے لقب سے پکارا ہے، اللہ تعالیٰ نے داؤد علیہ السلام کو حکمت اور فصلِ خطاب یعنی صحیح فیصلہ کرنے کی قوت بھی بخشی تھی اور پھر انہیں آسمانی کتاب ’’زبور‘‘ بھی عطا کی گئی۔ زبور اللہ تعالیٰ کی حمد سے معمور تھی، اللہ تعالیٰ نے آپ کو خوبصورت اور شیریں آواز عطا کی تھی، جب آپ خوش الحانی سے زبور کی تلاوت کرتے تھے تو جن وانس حتیٰ کہ جانور اور پرندے تک وجد میں آجاتے تھے اور ان پر سکتہ کی کیفیت طاری ہوجاتی تھی ، حضرت داؤد علیہ السلام کو اللہ تعالیٰ نے لوہے سے زرہیں بنانے میں مہارت دی تھی، آپ کے ہاتھ میں لوہا آتے ہی موم کی طرح پگھل جاتا تھا، پھر آپ ان سے زرہیں بناتے ، یہی آپ کا معاش کا ذریعہ تھا، اللہ تعالیٰ نے داؤد علیہ السلام اور ان کے فرزند سلیمان علیہ السلام کو پرندوں کی بولیاں سمجھنے کی صلاحیت بھی عطا کی تھی۔ حضرت داؤد علیہ السلام نے بنی اسرائیل پر چالیس سال حکومت کرنے کے بعد 100 سال کی عمر میں وفات پائی۔ آپ کی قبر مبارک بیت المقدس سے رملہ جاتے ہوئے ابوغوش کے بعد دائیں طرف ہے۔