حضرت ابراہیم علیہ السلام

قرآن مجید میں حضرت ابراہیم علیہ السلام کا ذکر مبارک (69) آپ آیا ہے، جس کی تفصیل درج ذیل ہے:

ابراہیم علیہ السلام کو ابو الانبیاء (نبیوں کا باپ) کہا جاتا ہے کہ اس کے بعد والے نبی کے نسل سے مبعوث ہوتے ہیں اور آپ کو ''خلی اللہ'' بھی کہا جاتا ہے، آپ کا سلسلہ نسب میں۔ یوں ہے:

''ابراہیم بن تارخ (آذر) بن ناحور بن سروج بن رعو بن فالح بن عابر بن شاالح بن ارفکشاذ بن سام بن نوح۔''

لیکن یہ سلسلہ نسب بہت نامکمل اور مختصر ہے کیونکہ ابراہیم علیہ السلام اور نوح علیہ السلام کے درمیان بہت زیادہ فاصلہ ہے، آپ کے والد کا نام تارخ ناحور تھا، آذر اور تارخ ایک شخص کے نام ہیں۔ آذر اس کاقبہ تھا، اس قرآن کے لیے اسی کو رسول کراہو۔ جب کہ بعض سوال کہتے ہیں کہ آذر آپ کو چاچا کا نام دیتے تھے، چوں کہ عرب لوگ آپ کو یاد کرتے تھے۔

آپ کو جنوبی میں کوفہ کے علاقے عراقکوثیٰ'' میں پیدا ہوئے، بعض آپ کی طرف سے ''بابل'' ''الورکاء'' بتاتے ہیں، ابراہیم علیہ السلام کی قوم پرست تھی یا حضرت ابراہیم علیہ السلام پر۔ آپ کا باطل ہونا اور اللہ کی وحدانیت آشکارا ہوئی تو سب سے پہلے اپنے والد ''آذر'' کو اسلام کی تلقین کیں اور ان پر نصیحتوں کا کچھ اثر نہ ہوا بلکہ ابراہیم علیہ السلام۔ کوڈرانا دھمکا نا شروع کرتے ہیں کہ اگر تو آپ کی برائی سے باز نہ آیا تو آپ سنگسار کردوں گا جب ابراہیم علیہ السلام نے تباہی مچادی تو قوم کے سامنے وحدانیت کی دعوت کو عام کیا اور بادشاہِ وقت نمرود مناظرہ کیا اور اس پر واضح کیا کہ عبادت کے لائق صرف اللہ وحدہ لاشریک کی ذات ہے، اس کے لیے قوم حق قبول کرنے سے منحرف رہی، اور نمرود نے ایک بڑی آگ میں اس ابراہیم علیہ السلام کو حکم دیا۔ ابراہیم علیہ السلام کے لیے اللہ تعالیٰ نے آگ کو ٹھنڈا اور سلامتی والا بنا دیا، اور اپنے ناپاک ارادوں کے ساتھ ذلیل اور رسوا کے ساتھ۔ یہ واقعہ ''کوثیٰ'' شہر میں پیش آیا۔

آگ لگنے کے بعد حضرت ابراہیم علیہ السلام اپنے والد اور قوم سے الگ عراق سے ہجرت طارق فرات کے غربی کنارہ کے قریب ایک بستی میں چلے گئے جو ''اُور کلدانین'' کے نام سے مشہور ہیں، تاریخ میں صرف ''اُور''۔ ''یا ''اُر'' بھی کہا جاتا ہے، یہاں کچھ عورت قیام کیا، آپ کے بھتیجے حضرت لوط علیہ السلام اور آپ کی حضرت سارہ ؓ ہم سفر کرتے ہیں، پھر ان کو کر کے شام کے شہر حران کی طرف۔ ہجرت کی جو جنوبی میں واقع ہے اور وہاں سے دین حنیف کی تبلیغ شروع ہوئی، پھر وہاں سے حلب کے راستے تلاش کیے گئے، اس سفر میں آپ کی سارہؓ اور لوط علیہ السلام اور ان کی بیوی بھی تھی۔ پھر وہاں سے حضرت لوط علیہ السلام کے ساتھ جنوبی فلسطین میں حاضر ہوئے، اس زمانہ میں یہ علاقہ کنعان کے زیر اثر محبت تھا اور پھر آپ دونوں اور بھائی قائم ہوئے الگ الگ الگ الگ الگ الگ الگ۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام بائر سبع میں اور حضرت لوط علیہ السلام بحیرہ مردار کے جنوب میں بیان کرتے ہیں۔

اس کے بعد آپ کے قریب ہی شکیم (نابلس) چلے گئے، وہاں کچھ قیام کی طرف، اس کے مغرب میں آگے بڑھتے رہے، یہاں تک کہ مصرجا جانا، اور یہاں حضرت ہاجرہ ؓ سے شادی کے بعد ہجرت کے ساتھ مکہ مکرمہ گئے۔ ان کے ساتھ شیرخوار حضرت اسماعیل علیہ السلام بھی گئے۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام ان دونوں کو مکہ کی آب وگیاہ خشک وادی میں واپس لے گئے، پھر وہاں زمزم کا چشمہ پھوٹا اور پھر کداء کے پیچھے سے بن جرہم آکر آباد ہوئے اور وقتاً فوقتاً آپ سے یہاں تشریف لایا۔ کرتے ہیں حضرت ابراہیم علیہ السلام فلسطین کے شہر الخلیل (حبرون) میں فوت ہوئے اور آپ کی تدفین کے وقت