Quam-e-Samud
قرآن مجید میں ’’قومِ ثمود‘‘ کاذکر بائیس (22) مرتبہ آیا ہے، جس کی تفصیل درج ذیل ہے:
ثمود بھی سامی اقوام کی ایک شاخ ہے، یہی وہ لوگ تھے جو عادِ اولیٰ کی ہلاکت کے بعد حضرت ہودu کے ساتھ بچ گئے تھے، اسی وجہ سے انہیں ’’عادِ ثانیہ‘‘ کہتے ہیں ، اور چوں کہ یہ ارم بن سام کی نسل سے تھے، اس لیے انہیں ’’ثمودِ ارم‘‘ بھی کہتے ہیں۔ ثمود کا سلسلۂ نسب حضرت نوحuتک یہ ہے: ’’ود بن عاد بن عوص بن ارم بن سام بن نوح‘‘ ۔
قومِ ثمود کی رہائش کی جگہ ’’حِجر ‘‘ کی بستیاں تھیں۔ حجاز اور شام کے درمیان وادی قریٰ تک جو میدان ہے، یہ سب ثمود کا مقامِ سکونت تھا، جو شمال مشرق میں تیماء سے لے کر سعودی ساحلی شہر ’’الوجہ‘‘ تک چلا گیا ہے، اس کے وسط میں ’’الدار الأحمر‘‘ اور ’’مدائنِ صالح‘‘ کے مقامات ہیں۔ آج کل ثمود کا علاقہ ’’فج الناقۃ‘‘ کے نام سے معروف ہے، جہاں ثمود کی بستیوں کے کھنڈر اور آثار ملتے ہیں۔
ان کی طرف اللہ تعالیٰ نے حضرت صالحuکو نبی بنا کر بھیجا تھا۔ یہ قوم بھی پچھلی قوموں کی طرح بت پرستی کا شکار ہوگئی تھی، اور انہوں نے اللہ کے معجزہ کی اونٹنی جو اُن کی فرمائش پر پہاڑ سے نکالی گئی تھی کو قتل کردیا، پھر ان پر عذاب آگیا، اور عذاب کی کیفیت یہ تھی کہ پہلے دن ان کے چہرے زرد پڑگئے، دوسرے دن سب کے چہرے سرخ ہوگئے اور تیسرے دن سب کے چہرے بالکل سیاہ ہوگئے، پھر بجلی کی کڑک، چمک اور ایک ہیبت ناک ، خوفناک اور زوردار چیخ کی آواز آئی، جس نے سب کو اسی حال میں ہلاک کردیا جس میں وہ تھے ، اور وہ سب اپنے گھروں میں اوندھے پڑے رہ گئے، اور آنے والے لوگوں کے لیے نشانِ عبرت بن گئے۔