HAZRAT IDREES (P.B.U.H)
:قرآن مجید میں حضرت ادریس علیہ السلام کا ذکر مبارک دو مرتبہ آیا ہے، جس کی تفصیل درج ذیل ہے
حضرت ادریس علیہ السلام ، حضرت نوحعلیہ السلام کے جدِ امجد ہیں، ان کا نام ’’اخنوخ‘‘ ہے، لوگ انہیں ’’ھرمس‘‘ یا ’’ الھرامسۃ‘‘ کہتے تھے، یہ سریانی زبان میں ایک نام ہے ، ’’ہرموس‘‘ کے معنی ’’تجربہ کار، مضبوط رائے والا‘‘۔ آپ کا نسب نامہ یہ ہے:
’’ اخنوخ (ادریس) بن یارد بن مہلائیل بن قینان بن انوش بن شیث بن آدم علیہ السلام ۔‘‘
البتہ ایک دوسرے طبقہ کا رجحان یہ ہے کہ ادریسعلیہ السلام ، نوحعلیہ السلام کے جدِامجد نہیں، بلکہ بنی اسرائیل کے نبی ہیں، اور الیاس اور ادریس دونوں ایک ہی شخص کا نام اور لقب ہے۔
آپ کی پیدائش مصر کی بستی منف میں ہوئی، بعض مؤرخین کے مطابق آپ ’’بابل ‘‘ شہر میں پیدا ہوئے، پھر ہجرت کرکے ’’مصر‘‘ پہنچے، سن شعور کو پہنچے تو اللہ نے نبوت سے سرفراز کیا۔ قوم کے اکثر لوگوں نے نافرمانی کی اور آدم اور شیث علیھم السلام کی شریعت کے مخالف رہے، البتہ ایک چھوٹی سی جماعت مشرف بہ اسلام ہوئی۔ حضرت ادریس علیہ السلام نے قوم کی ضد اور مخالفت کے باعث ہجرت کا ارادہ کیا اور اپنے پیروکاروں کو بھی ہجرت کی تلقین کی تو انہوں نے کہا کہ ’’بابل‘‘ جیسا وطن ہمیں کہاں نصیب ہوگا؟ ادریسعلیہ السلام نے کہا کہ اللہ کی رحمت وسیع ہے، وہ اس کا نعم البدل ضرور عطا کرے گا، چنانچہ انہوں نے بابل، حمص اور فلسطین کے راستے مصر کی جانب ہجرت کی ، مصر پہنچے تو حضرت ادریس علیہ السلام نے دریائے نیل دیکھ کر کہا : ’’بابلیون‘‘ یعنی بابل کی طرح شاداب مقام، یا بابرکت دریا، پھر یہاں ادریس علیہ السلام کی قوم نے سکونت اختیار کرلی اور یہاں پیغامِ الٰہی کو عام کرنا شروع کیا ۔
ابن حبان کی روایت کے مطابق حضرت ادریسعلیہ السلام پہلے شخص ہیں جنہوں نے قلم کا استعمال کیا، اور یہ پہلے انسان ہیں جنہوں نے علمِ حکمت ونجوم کی ابتدا کی ، ان کی طرف بہت سے حکیمانہ قول منسوب ہیں، اللہ تعالیٰ نے انہیں علم رمل بھی سکھایا تھا، ادریس علیہ السلام نے اپنی قوم میں دینِ الٰہی کے پیغام کو عام کرنے کے ساتھ ساتھ ان میں سے طلباء کو جمع کرکے انہیں ملکی سیاست کے اُصول وقواعد اور شہری زندگی کے بود وباش کے طریقے بھی سکھائے، پھر ان طلباء نے یہ علوم سیکھ کر کئی شہر اور بستیاں آباد کیں ، جن کو مدنی و شہری اُصولوں پر بسایا ۔ ان شہروں کی تعداد کم و بیش دو سو کے قریب تھی، جن میں سب سے چھوٹا شہر ’’رھا‘‘ تھا، اس کے کھنڈرات اب بھی باقی ہیں۔ حضرت ادریس علیہ السلام نے دنیا کو چار حصوں میں تقسیم کرکے ہر ایک حصے کے لیے ایک حاکم مقرر کیا۔
حضرت ادریس علیہ السلام کی تعلیمات کا خلاصہ توحید، اعمالِ صالحہ کی ترغیب، عدل وانصاف کرنا، عباداتِ الٰہیہ کی پابندی، ایامِ بیض کے روزے رکھنا، دشمنانِ اسلام سے جہاد کرنا، زکوٰۃ ادا کرنا، طہارت اور پاکی کا اہتمام، اور خصوصیت کے ساتھ کتے اور سور سے اجتناب کرنا اور ہر نشہ آور چیز سے پرہیز کرنا تھا۔ وہ اکنافِ عالم کی سیر وتبلیغ کرکے جب مصر لوٹے تو اللہ تعالیٰ نے انہیں 82 سال کی عمر میں اپنی جانب اُٹھالیا۔