Ashab Al Akhdwd
قرآن مجید میں ’’أصحاب الأخدود‘‘ کاذکر ایک مرتبہ آیا ہے، جس کی تفصیل درج ذیل ہے:
لغت میں ’’أخدود‘‘ زمین کی لمبی کھائی کو کہتے ہیں۔ یمن کے حمیری بادشاہ یوسف ذو نواس جو یہودی تھا، اس نے اپنی مملکت کے مومن باشندوں کو مرتد ہونے سے انکار کرنے پر قتل کردیا تھا، چوں کہ اس کافر بادشاہ اور اس کے امراء سلطنت نے خندقیں کھدواکر ان کے اندر آگ جلاکر عیسائی مومنوں کو اس میں ڈال کر زندہ جلادیا تھا، اس لیے ان کافروں کو ’’أصحاب الأخدود‘‘ کہتے ہیں ۔
ان کا مکمل واقعہ صحیح مسلم میں اس طرح موجود ہے، حضرت صہیبt سے روایت ہے کہ رسول اللہ (a)نے فرمایا: تم سے پہلے ایک بادشاہ تھا جس کے پاس ایک جادوگر تھا، جب وہ جادوگر بوڑھا ہو گیا تو اس نے بادشاہ سے کہا کہ اب میں بوڑھا ہو گیا ہوں تو آپ میرے پاس ایک لڑکے کو بھیج دیں، تاکہ میں اُسے جادو سکھا سکوں۔ بادشاہ نے ایک لڑکا جادو سیکھنے کے لیے جادوگر کی طرف بھیج دیا، جب وہ لڑکا چلا تو اس کے راستے میں ایک راہب تھا ، وہ لڑکا اس راہب کے پاس بیٹھا اور اس کی باتیں سننے لگا جو اُسے پسند آئیں، پھر جب بھی وہ جادوگر کے پاس آتا اور راہب کے پاس سے گزرتا تو اس کے پاس بیٹھتا (اور اس کی باتیں سنتا) اور جب وہ لڑکا جادوگر کے پاس آتا تو وہ جادوگر اس لڑکے کو (دیر سے آنے کی وجہ سے ) مارتا تو اس لڑکے نے اس کی شکایت راہب سے کی تو راہب نے کہا کہ اگر تجھے جادوگر سے ڈر ہو تو کہہ دیا کر کہ مجھے میرے گھر والوں نے روک لیا تھا اور جب تجھے گھر والوں سے ڈر ہو تو تو کہہ دیا کر کہ مجھے جادوگر نے روک لیا تھا۔
اسی دوران ایک دن ایک بہت بڑے درندے نے لوگوں کا راستہ روک لیا (جب لڑکا اس طرف آیا) تو اس نے کہا: میں آج جاننا چاہوں گا کہ جادوگر افضل ہے یا راہب افضل ہے؟ اور پھر ایک پتھر پکڑا اور کہنے لگا اے اللہ! اگر تجھے جادوگر کے معاملہ سے راہب کا معاملہ زیادہ پسند یدہ ہے تو اس درندے کو مار دے، تاکہ لوگوں کے آنے جانے کا راستہ کھل جائے، اور پھر اس نے پتھر اس درندے کو مارا جس سے وہ قتل ہوگیا ، اور لوگ گزرنے لگے۔
پھر وہ لڑکا راہب کے پاس آیا اور اسے اس کی خبر دی تو راہب نے اس لڑکے سے کہا: اے میرے بیٹے ! آج تو مجھ سے افضل ہے، کیونکہ تیرا معاملہ اس حد تک پہنچ گیا ہے کہ جس کی وجہ سے تو عنقریب ایک مصیبت میں مبتلا کر دیا جائے گا، پھر اگر تو (کسی مصیبت میں) مبتلا کر دیا جائے تو کسی کو میرا نہ بتانا اور وہ لڑکا مادر زاد اندھے اور کوڑھی کو صحیح کر دیتا تھا، بلکہ لوگوں کا سب بیماری سے علاج بھی کر دیتا تھا ۔
بادشاہ کا ایک ہم نشین اندھا ہو گیا، اس نے لڑکے کے بارے میں سنا تو وہ بہت سے تحفے لے کر اس کے پاس آیا اور اسے کہنے لگا کہ اگر تم مجھے شفا دے دو تو یہ سارے تحفے جو میں یہاں لے کر آیا ہوں وہ سارے تمہارے لیے ہیں۔ اس لڑکے نے کہا: میں تو کسی کو شفا نہیں دے سکتا، شفاء تو اللہ تعالیٰ دیتا ہے تو اگر تو اللہ پر ایمان لے آئے تو میں اللہ تعالیٰ سے دعا کروں گا کہ وہ تجھے شفاء دے دے۔ پھر وہ (شخص) اللہ پر ایمان لے آیا تو اللہ تعالیٰ نے اسے شفاء عطا فرما دی۔
پھر وہ آدمی بادشاہ کے پاس آیا اور اس کے پاس بیٹھ گیا، جس طرح کہ وہ پہلے بیٹھا کرتا تھا۔ بادشاہ نے اس سے کہا کہ کس نے تجھے تیری بینائی واپس لوٹا دی؟ اس نے کہا: میرے رب نے۔ اس نے کہا: کیا میرے علاوہ تیرا اور کوئی رب بھی ہے؟ اس نے کہا: میرا اور تیرا رب اللہ ہے۔ پھر بادشاہ اس کو پکڑ کر اُسے عذاب دینے لگا، یہاں تک کہ اس نے بادشاہ کو لڑکے کے بارے میں بتادیا، پھر جب وہ لڑکا آیا تو بادشاہ نے اس لڑکے سے کہا کہ اے بیٹے! کیا تیرا جادو اس حد تک پہنچ گیا ہے کہ اب تو مادر زاد اندھے اور کوڑھی کو بھی صحیح کرنے لگ گیا ہے اور ایسے ایسے کرتا ہے؟ لڑکے نے کہا: میں تو کسی کو شفا نہیں دیتا، بلکہ شفاء تو اللہ تعالیٰ دیتا ہے۔ بادشاہ نے اسے پکڑ کر عذاب دینا شروع کیا، یہاں تک کہ اس نے راہب کے بارے میں بادشاہ کو بتا دیا۔ راہب آیا تو اس سے کہا گیا کہ تو اپنے مذہب سے پھر جا، راہب نے انکار کر دیا، پھر بادشاہ نے آرا منگوایا اور اس راہب کے سر پر رکھ کر اس کا سر چیر کر اس کے دو ٹکڑے کر دیے۔
پھر بادشاہ کے ہم نشین کو لایا گیا اور اس سے بھی کہا گیا کہ تو اپنے مذہب سے پھر جا، اس نے بھی انکار کر دیا، بادشاہ نے اس کے سر پر بھی آرا رکھ کر سر کو چیر کر اس کے دو ٹکڑے کروا دیے ۔
پھر اس لڑکے کو بلوایا گیا، وہ آیا تو اس سے بھی یہی کہا گیا کہ اپنے مذہب سے پھر جا، اس نے بھی انکار کر دیا تو بادشاہ نے اس لڑکے کو اپنے کچھ ساتھیوں کے حوالے کرکے کہا: اسے فلاں پہاڑ پر لے جاؤ اور اسے اس پہاڑ کی چوٹی پر چڑھاؤ، اگر یہ اپنے مذہب سے پھر جائے تو اسے چھوڑ دینا اور اگر انکار کر دے تو اسے پہاڑ کی چوٹی سے نیچے پھینک دینا ۔
چنانچہ بادشاہ کے ساتھی اس لڑکے کو پہاڑ کی چوٹی پر لے گئے تو اس لڑکے نے کہا: اے اللہ! تو مجھے ان سے کافی ہوجا، جس طرح تو چاہے مجھے ان سے بچا لے، اس پہاڑ پر فوراً ایک زلزلہ آیا جس سے بادشاہ کے وہ سارے ساتھی گر گئے اور وہ لڑکاچلتے ہوئے بادشاہ کی طرف آ گیا۔ بادشاہ نے اس لڑکے سے پوچھا کہ تیرے ساتھیوں کا کیا ہوا؟ لڑکے نے کہا: اللہ پاک نے مجھے اُن سے بچا لیا ہے۔
بادشاہ نے پھر اس لڑکے کو اپنے دوسرے چند ساتھیوں کے حوالے کر کے کہا: اگر یہ اپنے مذہب سے نہ پھرے، اسے ایک چھوٹی کشتی میں لے جا کر سمندر کے درمیان میں پھینک دینا۔ بادشاہ کے ساتھی اس لڑکے کو لے گئے تو اس لڑکے نے کہا: اے اللہ! تو جس طرح چاہے مجھے ان سے بچا لے۔ پھر وہ کشتی بادشاہ کے ان ساتھیوں سمیت اُلٹ گئی اور وہ سارے کے سارے غرق ہو گئے اور وہ لڑکا چلتے ہوئے بادشاہ کی طرف آ گیا۔ بادشاہ نے اس لڑکے سے کہا تیرے ساتھیوں کا کیا ہوا؟ اس نے کہا: اللہ تعالیٰ نے مجھے ان سے بچا لیا ہے۔
پھر اس لڑکے نے باشاہ سے کہا: تو مجھے قتل نہیں کر سکتا جب تک کہ اس طرح نہ کرو جس طرح کہ میں تجھے حکم دوں۔ بادشاہ نے کہا: وہ کیا؟ اس لڑکے نے کہا: سارے لوگوں کو ایک میدان میں اکٹھا کرو اور مجھے سولی کے تختے پر لٹکاؤ، پھر میرے ترکش سے ایک تیر کو پکڑو، پھر اس تیر کو کمان کے حلہ میں رکھو اور پھر کہو: اس اللہ کے نام سے جو اس لڑکے کا رب ہے، پھر مجھے تیر مارو۔ اگر تم اس طرح کرو تو مجھے قتل کرسکتے ہو، تو بادشاہ نے لوگوں کو ایک میدان میں اکٹھا کیا اور اس لڑکے کو سولی کے تختے پر لٹکا دیا اور اس کے ترکش میں سے ایک تیر لیا، پھر اس تیر کو کمان کے حلہ میں رکھ کر کہا: ’’اس اللہ کے نام سے جو اس لڑکے کا رب ہے۔‘‘ اور وہ تیر اس لڑکے کو مارا ، وہ تیر اس لڑکے کی کنپٹی میں جا گھسا ، لڑکے نے اپنا ہاتھ تیر لگنے والی جگہ پر رکھا اور مر گیا ۔
یہ منظر دیکھ کر سب لوگوں نے کہا ہم اس لڑکے کے رب پر ایمان لے آئے ، ہم اس لڑکے کے رب پر ایمان لے آئے، ہم اس لڑکے کے رب پر ایمان لے آئے ، بادشاہ کو اس کی خبر دی گئی اور اس سے کہا گیا: تجھے جس بات کا ڈر تھا، اب وہی بات آن پہنچی کہ لوگ ایمان لے آئے۔
اس کے بعد بادشاہ نے گلیوں کے دھانوں پر خندق کھودنے کا حکم دیا ، اس کے حکم سے خندقیں کھودی گئیں اور ان خندقوں میں آگ جلا دی گئی۔ بادشاہ نے کہا جو آدمی اپنے مذہب سے پھرنے سے باز نہیں آئے گا تو میں اس آدمی کو اس خندق میں ڈلوا دوں گا۔ ایمان لانے والوں میں سے کوئی اپنے دین سے نہ پھرا، بادشاہ نے انہیں آگ کی خندق میں ڈلوادیا، یہاں تک کہ ایک عورت آئی اور اس کے ساتھ ایک بچہ بھی تھا، وہ عورت خندق میں گرنے سے گھبرائی تو اس عورت کے بچے نے کہا: اے امی جان! صبر کر، کیونکہ تو حق پر ہے ۔یہ واقعہ 523ء میں پیش آیا۔