Hazrat Saleh (P.B.U.H)

قرآن مجید میں حضرت صالح علیہ السلام کا ذکر مبارک نو (9 ) مرتبہ آیا ہے، جس کی تفصیل درج ذیل ہے:

حضرت صالح علیہ السلام جس قوم میں پیدا ہوئے وہ ثمود کہلاتی ہے، ان کا نسب نامہ یوں ہے:

’’صالح بن عبید بن آسف بن ماشح بن عبید بن حارد بن ثمود۔‘‘

اور ثمود کا سلسلۂ نسب حضرت نوح علیہ السلام تک یہ ہے:

’’ثمود بن عاد بن عوص بن ارم بن سام بن نوح۔‘‘

قومِ ثمود بھی سامی اقوام کی ایک شاخ ہے، یہی وہ لوگ تھے جو عادِ اولیٰ کی ہلاکت کے بعد حضرت ہود علیہ السلام کے ساتھ بچ گئے تھے، اسی وجہ سے انہیں’’عادِ ثانیہ‘‘ کہتے ہیں ، اور چوں کہ یہ ارم بن سام کی نسل سے تھے، اس لیے انہیں’’ثمودِ ارم‘‘ بھی کہتے ہیں۔

قومِ ثمود کی رہائش کی جگہ ’’حِجر‘‘ کی بستیاں تھیں، حجاز اور شام کے درمیان وادیِ قریٰ تک جو میدان ہے، یہ سب ثمود کا مقامِ سکونت تھا، جو شمال مشرق میں تیماء سے لے کر سعودی ساحلی شہر’’الوجہ‘‘ تک چلا گیا ہے، اس کے وسط میں ’’الدار الأحمر‘‘ اور ’’مدائنِ صالح‘‘ کے مقامات ہیں، آج کل ثمود کا علاقہ ’’فج الناقۃ ‘‘ کے نام سے معروف ہے، جہاں ثمود کی بستیوں کے کھنڈر اور آثار ملتے ہیں۔

ثمودکا زمانہ حضرت ابراہیم علیہ السلام سے بہت پہلے کا ہے، اہلِ ثمود بھی اپنے سے پہلی قوموں کی طرح بت پرستی کا شکار ہوگئے تھے، خدائے واحد کے علاوہ بہت سے معبودانِ باطلہ کے پرستار اور شرک میں مبتلا ہوگئے تھے، اس لیے ان کی اصلاح کے لیے اللہ تعالیٰ نے عادت کے مطابق انہی میں سے ایک شخص حضرت صالح علیہ السلام کو نبی اور اپنا پیغمبر بنا کر بھیجا، تاکہ وہ انہیں راہِ راست پر آنے کی دعوت دیں۔  سو حضرت صالح علیہ السلام نے اپنی قوم کو توحید اور راہِ حق کی دعوت دینا شروع کی، لیکن یہ لوگ طاقت، شان و شوکت اور قوت کے نشہ میں اس قدر مست تھے کہ صالح علیہ السلام کی بات ماننے کے لیے تیار نہ ہوئے، یہ اتنے طاقت ور اور ماہر تھے پہاڑوں میں تراش کر گھر بنایا کرتے تھے، غرض چند لوگوں کے علاوہ باقی قوم کے امیر ، مالدار اور سردار لوگوں نے ایمان قبول نہیں کیا، بلکہ حضرت صالح علیہ السلام اور ان کے پیروکاروں کا مذاق اُڑانے لگے، اور کہا کہ: اے صالح! اگر آپ واقعی خدا کے پیغمبر ہیں تو کوئی ایسی نشانی دکھائیں کہ ہم آپ کی صداقت پر ایمان لے آئیں۔ صالح علیہ السلام نے کہا: ایسا نہ ہو کہ نشانی آنے کے بعد تم پھر بھی نہ مانو؟! تو انہوں نے تاکید سے کہا کہ: ہم پھر ایمان لے آئیں گے۔ تب حضرت صالح علیہ السلام نے ان سے کہا کہ: وہ کس قسم کا معجزہ اور نشانی چاہتے ہیں ؟ تو انہوں نے کہا کہ: یہ سامنے والے پہاڑ سے یا بستی کے اس پتھر سے جو کنارہ پر نصب ہے اس سے ایک گابھن اونٹنی نکلے اور وہ فوراً بچہ جنے۔ حضرت صالحعلیہ السلام نے اللہ سے دعا کی، اور پھر اسی وقت یکایک سب کے سامنے پہاڑ سے ایک حاملہ اونٹنی ظاہر ہوئی اور اس نے اسی وقت بچہ جنا۔ یہ دیکھ کر اُن میں سے کچھ لوگ تو ایمان لے آئے، لیکن اکثر نے ضد اور عناد کی وجہ سے ایمان قبول نہیں کیا۔ حضرت صالحعلیہ السلام نے قوم کو تنبیہ کی کہ دیکھو! یہ اونٹنی تمہارے مطالبہ پر اللہ کی طرف سے بھیجی گئی ہے، اس کو ہاتھ نہ لگانا، اور قوم کے سب جانور وں کے لیے ایک دن پانی کی باری ہوگی، اور ایک دن اس اونٹنی کی باری ہوگی۔ کچھ وقت یوں ہی چلتا رہا، لیکن آخر میں قوم سے یہ برداشت نہ ہوا، لیکن کسی کو اس اونٹنی کو قتل کی جرأت بھی نہیں ہوتی تھی، پھر قوم کی ایک حسین عورت ’’صدوق‘‘ نے ایک شخص ’’مصدع‘‘ کے سامنے اپنے آپ کو پیش کیا اور ایک مالدار عورت نے اپنی حسین وجمیل لڑکی ایک اور شخص ’’قیدار بن سالف‘‘ کو پیش کی کہ اگر وہ اس اونٹنی کو قتل کردیں تو وہ اس سے اپنی لڑکی کی شادی کروادے گی، پس ان دونوں مصدع اور قیدار نے چند لوگوں کی مد د سے اس اونٹنی کو رات میں قتل کردیا، یہ دیکھ کر بچہ چیختا ہوا پہاڑ پر بھاگ گیا اور غائب ہوگیا۔

حضرت صالح علیہ السلام کو جب معلوم ہوا تو حسرت وافسوس کے ساتھ قوم کو مخاطب کرکے کہا کہ: وہی ہوا جس کا مجھے اندیشہ تھا، اب اللہ کے عذاب کا انتظار کرو جو تین دن میں تم کو تباہ کردے گا، اور صالحعلیہ السلام وہاں سے نکل گئے، اور اگلے دن ہی سے عذاب کی علامات ظاہر ہونا شروع ہوگئیں۔ پہلے دن ان کے چہرے زرد پڑگئے، دوسرے دن سب کے چہرے سرخ ہوگئے اور تیسرے دن سب کے چہرہ بالکل سیاہ ہوگئے، پھر بجلی کی کڑک، چمک اور ایک ہیبت ناک ، خوفناک اور زوردار چیخ کی آواز آئی، جس نے سب کو اسی حال میں ہلاک کردیا جس میں وہ تھے ، اور وہ سب اپنے گھروں میں اوندھے پڑے رہ گئے، اور آنے والے لوگوں کے لیے نشانِ عبرت بن گئے۔

قوم کی ہلاکت کے بعد صالحعلیہ السلام اپنے پیروکار مسلمانوں کے ساتھ فلسطین کے علاقے ’’رَملہ‘‘ میں چلے گئے اور وہیں آباد ہوئے۔ اور ایک قول یہ ہے کہ وہ اپنے آباء واجداد کے علاقے احقاف چلے گئے او ر وہیں ان کا انتقال ہوا ۔ جبکہ بعض لوگوں کا خیال ہے کہ وہ مکہ مکرمہ ہجرت کر گئے تھے، وہیں انتقال ہوا۔ اور بعض لوگ کہتے ہیں وہ قوم کی ہلاکت کے بعد وہیں اپنے علاقوں میں رہے۔