Ashab Al Fyl
قرآن مجید میں ’’أصحاب الفیل‘‘ کا ذکر ایک مرتبہ آیا ہے، جس کی تفصیل درج ذیل ہے:
’’أصحاب الفیل‘‘ کا مطلب ہے ’’ہاتھی والے‘‘۔ ان کا واقعہ یہ ہے کہ یمن کا ایک بادشاہ جس کا نام ’’اَبرہہ‘‘ تھا، نہایت ہی عیاش اور شہوت پرست تھا، اس نے جب یہ دیکھا کہ عرب کے لوگ کعبہ کی طرف رجوع کرتے ہیں اور وہاں تمام اطراف واکناف کے لوگ زیارت و عبادت کی نیت سے جاتے ہیں تو اس نے بیت اللہ کی عظمت و برتری ختم کرنے کے لیے شہر (صنعاء )یمن میں ایک کنیسہ (گِرجا) تعمیر کرایا، جس میں ہر طرح کی تعمیری زیبائش اور آرائش رکھی، تاکہ لوگ اس کو دیکھ کر فریفتہ ہوجائیں اور بیت اللہ کو چھوڑ دیں، اور حکم جاری کردیا کہ کوئی شخص مکہ نہ جائے اسی کعبہ کا حج کیا کرے، لیکن لوگوں پر اس اعلان کا کوئی اثر نہیں ہوا اور بدستور اہلِ عرب ویمن مکہ مکرمہ ہی جاتے رہے۔
اہلِ مکہ کو ابرہہ بادشاہ کے اس کام پر سخت غصہ آیا ، اور ایک عرب کے باشندے نے جاکراس کے کنیسہ میں پاخانہ کرکے اس کو جگہ جگہ سے آلودہ کردیا، پھر چند روز بعد اس میں آگ لگ گئی۔ جب حالات کی تحقیق کی تو معلوم ہوا کہ یہ آگ بھی مکہ کے لوگوں نے لگائی ہے تو ابرہہ بادشاہ نے غصہ میں آکر ایک لشکر تیار کیا، جو بڑے طاقتور ہاتھیوں پر بھی مشتمل تھا، اور یہ ہاتھیوں کا لشکر مکہ کی طرف کعبۃ اللہ کو منہدم کرنے کے لیے روانہ ہوا اور راستہ میں جو قبیلہ بھی عرب کے قبائل میں سے مزاحمت کرتا اس کو شکست دیتے ہوئے آگے بڑھتا رہا ،یہاں تک کہ جب یہ لشکر مکہ مکرمہ کے قریب پہنچا تو مکہ کے اطراف میں جو مویشی بھی جنگلوں میں چرتے نظر آئے، ابرہہ کا لشکر ان کو بھی پکڑنے لگا۔
اسی میں عبدالمطلب جو حضور a کے دادا تھے ان کے بھی دو سو اونٹ پکڑلیے، اس وقت عبدالمطلب ہی قریش کے سردار اور بیت اللہ کے متولی تھے، جب ان کو اس کا علم ہوا تو انہوں نے قریش کے لوگوں کو جمع کر کے کہا: گھبرانے کی کوئی ضرورت نہیں، یہ کعبہ اللہ کا گھر ہے، وہ خود اس کی حفاظت کرلے گا، اور تم لوگ مکہ خالی کرکے میدانوں میں نکل جاؤ۔ اس کے بعد عبدالمطلب چند رؤساء قریش کو اپنے ہمراہ لے کر ابرہہ سے ملاقات کے لیے گئے ، ابرہہ نے بڑی ہی عزت کے ساتھ استقبال کیا، عبدالمطلب حسن و جمال کا پیکر تھے، وقار و عظمت اور ہیبت ان پر برستی تھی۔ اور اللہ نے ان کو ایسی وجاہت اور دبدبہ عطا کیا تھا کہ دیکھنے والا دیکھتے ہی مرعوب ہوجاتا تھا ۔ ابرہہ اس قدر مرعوب ہوا کہ عبدالمطلب کو اپنے ساتھ اپنے تخت پر بٹھانا تو گوارا نہ کیا، البتہ خود تخت سے نیچے اُتر کر فرش پر بیٹھا اور اُن کو اپنے ساتھ برابر میں بٹھایا، اور پوچھا: آپ کیا چاہتے ہو؟ تو انہوں نے کہا: میرے جو اونٹ پکڑ لیے ہیں وہ مجھے واپس کردو۔
ابرہہ نے کہا: آپ نے اپنے اونٹوں کو تو چھوڑ دینے کا ذکر کیا اور خانہ کعبہ جو تمہارا اور تمہارے آباء و اجداد کا کعبہ اور دین و مذہب ہے اس کے بارے میں تم نے کوئی حرف نہیں کہا؟ عبدالمطلب نے جواب دیا کہ اونٹوں کا میں مالک ہوں (لہٰذا میں جس کا مالک ہوں میں نے اس کی فکر کی اور اس کا ذکر کیا) اور کعبہ تو اللہ کا گھر ہے، اللہ ہی اس کا رب ہے تو وہی اس کی حفاظت کرے گا۔ ابرہہ نے کچھ سکوت کے بعد عبدالمطلب کے اونٹ واپس کردینے کا حکم دیا۔ یہ تمام اونٹوں کو لے آئے اور خانہ کعبہ کی نذر کردیئے، اور بیت اللہ کے دروازے پر آکر گڑ گڑا کر دعا مانگنے لگے کہ: اے اللہ! یہ تو تیرا گھر ہے، تو ہی اس کی حفاظت فرما، یہ دشمن ہاتھیوں کا لشکر عظیم لے کر آئے ہیں اور تیرے حرم کو برباد کرنے کا قصد لے کر آئے ہیں اور اپنی جہالت سے انہوں نے تیری عظمت و جلال کو نہیں سمجھا۔
عبدالمطلب دعا سے فارغ ہوئے ہی تھے، اور اُدھر ابرہہ اپنا لشکر لے کر آگے بڑھنے کا ارادہ ہی کر رہا تھا کہ اچانک ابابیل پرندوں کے غول کے غول نظر آئے، ہر ایک پرندہ کی چونچ اور پنجوں میں تین تین کنکریاں تھیں، جو دفعتاً لشکر پر برسنی شروع ہوگئیں، قدرت کی طرف سے پھینکی جانے والی یہ کنکریاں گولیوں سے بھی تیز کام کررہی تھیں ، لشکر میں سے ہر ایک کے سر پر ایک کنکری گرتی اور نیچے سے نکل جاتی، اور جس پر وہ کنکری گرتی وہ ختم ہوجاتا، اس طرح تمام لشکر تباہ ہوگیا، خواہ وہ انسان ہو یا حیوان۔
اور روایات میں ہے کہ ابرہہ کے بدن پر چیچک جیسے آبلے نمودار ہوگئے اور اس کا تمام بدن اس سے سڑ گیا اور جسم کے تمام حصوں سے خون اور پیپ بہنے لگا، بالآخر ایک ایک حصہ کٹ کٹ کر گرتا گیا، یہاں تک کہ سینہ پھٹ گیا اور اسی میں مرگیا۔
یہ واقعہ آنحضرت (a)کی ولادت باسعادت سے پچاس پچپن روز پہلے کا پیش آنے والا عظیم تاریخی واقعہ ہے۔